نظر آتا ہے کہ حضرت ہارون ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے اور حضرت موسیٰ کے مقابلے میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے تھے۔ وہ حضرت موسیٰ کے شعور میں ایک حساس یونٹ تلاش کرتے ہیں۔ برادری ایک حساس رشتہ ہے۔ اپنے خیال کے مطابق وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اگر میں آپ کی ہدایات کے مطابق کام کرتا تو بنی اسرائیل کے اند رفرقہ بندی ہوجاتی۔ ایک گروہ بچھڑے کی حمایت میں اٹھ جاتا دوسرا میرے ساتھ ہوجاتا حالانکہ آپ کا حکم یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی حفاظت اور نگرانی رکھ اور ان میں کوئی نئی بات پیدا ہونے نہ دو ، تو ان کو انتشار سے بچانا بھی اطاعت امر ہے۔
حضرت موسیٰ کے غضب اور غصے کا رخ سامری کی طرف مڑ جاتا ہے جس نے اس فتنے کو ایجاد کیا تھا۔ اس سے پہلے حضرت موسیٰ اس کی طرف اس لئے متوجہ نہیں ہوتے کہ لوگوں کا بھی یہ فریضہ تھا کہ وہ ہر کس و ناکس کی اطاعت نہ کریں۔ پھر حضرت ہارون کی ذمہ داری آتی ہے کیونکہ وہ بھی ذمہ دار تھے کہ بچھڑے کی وپجا کرنے والوں کی راہ روکتے۔ رہے سامری تو ان کی ذمہ داری سب سے آخر میں آتی ہے کیونکہ اس نے ان کو زبردستی بچھڑے کی عبادت کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ نہ اس نے ان کی عقل پر تالالگا دیا تھا۔ اس نے ان کو گمراہ کیا اور یہ گمراہ ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ ان کے بس میں یہ بات تھی کہ وہ اپنے پہلے بنی کی اطاعت کرتے ، پھر ان کا یہ فریضہ تھا کہ دوسرے نبی کی نصیحت پر عمل کرتے۔ لہٰذا اصل ذمہ داری پہلے قوم کی ہے ، پھر ان کے نگراں کی اور اس کے بعد اس شخص کی ہے جس نے یہ فتنہ پیدا کیا۔ چناچہ حضرت موسیٰ سب سے آخر میں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔