undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ہارون (موسیٰ کے آنے سے) پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ” لوگو تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑگئے ہو ، تمہارا رب تو رحمٰن ہے ، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ “ مگر انہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ” ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آجائے۔ “

یہ ہے وہ فتنہ جس کے ذریعہ بنی اسرائیل گمراہ ہوئے لیکن قرآن اس کا تذکرہ اس وقت کرتا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے سامنے آ کر تحقیق کرتے ہیں۔ اس سے قبل اللہ کے ساتھ مناجات کے موقعہ پر قرآن نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ ان تفصیلات کو خفیہ رکھا تاکہ ان کو اس وقت ظاہر کیا جائے جب موسیٰ (علیہ السلام) خود تحقیقات کرلیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ایک ایسے مصنوعی بچھڑے کی پوجا کر رہی جو آواز نکالتا ہے۔ یہ بچھڑا سونے سے بنا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا رب اور یہی ہے موسیٰ کا رب۔ موسیٰ غلطی سے طور پر چلے گئے ، رب سے ملاقات کے لئے حالانکہ رب تو یہ ہے حاضر تمہارے سامنے ! !

جب موسیٰ (علیہ السلام) آئے تو نہایت ہی طیش کی حالت میں ان سے پوچھنے لگے۔

یقوم الم یعدکم ربکم وعدا حسناً (02 : 68) ” اے میری قوم کے لوگو ، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کئے تھے۔ “ اللہ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم عقیدہ توحید پر جمے رہے تو تم ارض مقدس میں داخل ہوگئے اور تمہیں نصرت ملے گی۔ اس عہد اور اس کے آثار کے ظہور پر کوئی زیادہ طویل عرصہ تک نہ گزر گیا تھا۔ وہ ان کی سخت گوشمالی کرتے ہیں۔

افطال علیکم العھد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم (02 : 68) ” کیا تمہیں دن لگ گئے تھے یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے۔ “ کیونکہ تمہارا یہ عمل تو ایسا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ کے غضب کے طلبگار ہو ، تم نے گویا عمداً یہ حرکت کی ہے اور قصداً تم اللہ کا غضب چاہت یہو۔ کیا کوئی بہت ہی طویل عرصہ گزر گیا تھا۔

فاخلفتم موعدی (02 : 68) ” تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی۔ “ تم نے یو وعدہ کیا تھا کہ میرے آنے تک تم میرے عہد پر قائم رہو گے۔ تم اپنے نظریات و عمل میں کوئی تبدیلی نہ کرو گے بغیر میری اجازت کے۔

اب ذرا ان کی معذرت کو دیکھو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل ترین غلامی نے ان کے قلب و نظر کو فاسد کردیا تھا اور ان کا دماغ بھی صحیح طرح کام نہ کر رہا تھا۔