undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

قال فانا قدفتنا قومک من بعدلک واضلھم السامری (02 : 58) ” فرمایا اچھا تو سنو ، کہ ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ار سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس ابتلاء کا پتہ نہ تھا۔ اللہ کے ساتھ ملاقات میں پہلی بار ان کو پتہ چلا۔ حضرت موسیٰ نے یہ تختیاں لیں۔ ان میں ہدایت تھی۔ اس میں بنی اسرائیل کی زندگی کی تعمیر کے لئے ایک ایسا دستور تھا جو انہیں اس مقصد کے لئے تیار کر کے دیا گیا تھا جس کے لئے انہیں اٹھایا گیا تھا۔

یہاں کوہ طور موسیٰ (علیہ السلام) کی مناجات کا منظر جلدی سے لپیٹ دیا جاتا ہے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ان تاثرات کو قلم بند کیا جائے جو ان پر وقم کی گمراہی کی خبر سن کر طاری ہوئے۔ واپسی کے لئے ان کی جلدی بھی منظر پر آئے اور یہ دکھایا جائے کہ وہ کس قدر غیض و غضب میں ہیں۔ اس قوم کو تو انہوں نے حال ہی میں فرعون کی غلامی سے چھڑایا تھا اور بت پرستی کی ذلت سے نجات دلائی تھی۔ پھر اللہ نے صحرا میں ان کے لئے کھانے پینے کی سہولتیں مہیا کیں اور صاف صاف ہدایات بھی دیں کہ گمراہی سے بچنا اور گمراہی کے عواقب اور نتائج بھی بتا دیئے۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ وہ پہلی ہی پکار پر بت پرست بن گئے اور پھر مصنوعی گو سالہ کی پرستش میں لگ گئے۔

یہاں قرآن مجید صراحت کے ساتھ یہ نہیں بتاتا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ضلالت کی تفصیلات بتا دی تھی یا نہیں لیکن واپسی پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غیض و غضب کا اظہار کرنا ، نہایت ہی ناراض ہونا ، بھائی پر غصہ ہونا اور قوم کو ملامت کرنا ، یہ سب امور یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ نے ان کو سب کچھ بتلا دیا تھا اور وہ جان گیء تھے کہ بنی اسرائیل نے کسی نہایت ہی بری حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔