آیت 85 قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ ”اگرچہ یہاں صراحت کے ساتھ ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے مگر انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی اس عجلت پسندی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی قوم کو فتنے میں مبتلا کردیا۔وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ”اس انداز تخاطب میں یہ تفصیل بھی مضمر ہے کہ اگر آپ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ ساتھ رہتے ‘ ان کا تزکیہ کرتے رہتے ‘ وہ لوگ آپ علیہ السلام کی تعلیم و تربیت سے مسلسل بہرہ مند ہوتے رہتے تو یقیناً ان کی عقل و فہم مزید پختہ ہوتی اور اس طرح اس فتنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن جب آپ علیہ السلام انہیں چھوڑ کر آگئے تو اس کے نتیجے میں ایک فتنہ گر شخص کو اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔سامری کے بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس کا تعلق قبطی قوم سے تھا اور کسی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے ساتھ مل چکا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں معتبر رائے یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہی تھا مگر منافق تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اسے خاص کد تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابو عامر راہب کو حضور ﷺ سے کد تھی۔ ابو عامر راہب کا ذکر سورة التوبہ کے مطالعے کے دوران آیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ خزرجی تھا۔ ابتدائی عمر میں بہت نیک اور عبادت گزار تھا ‘ بعد میں اس نے عیسائیت قبول کر کے رہبانیت اختیار کرلی۔ حضور ﷺ سے اسے خصوصی طور پر بغض تھا اور اس کا یہ بغض اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی آپ علیہ السلام کے خلاف جدوجہد اور سازشوں میں مصروف رہا۔ چناچہ جیسا کردار ابوعامر راہب کا امت محمد ﷺ میں رہا ‘ اس سے ملتا جلتا کردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سامری کا تھا۔