You are reading a tafsir for the group of verses 20:83 to 20:84
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ سن کر حیران رہ گئے ۔ وہ رب تعالیٰ کی ملاقات کے لئے بےتاب تھے ۔ انہوں نے چالیس دن کا وقت بھی گزار لیا تھا اور ملاقات کی تیاری بھی کرلی تھی تاکہ وہ بنی اسرائیل کے لئے نیا نظام زندگی حاصل کرلیں کیونکہ ابھی ابھی وہ آپ کی قیادت میں فرعون کی غلامی سے رہا ہوئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل ایک ایسی امت ہو جس کے پاس ایک پغیام ہو اور اس کے کچھ فرائض ہوں۔

لیکن بنی اسرائیل کی حالت یہ تھی کہ ایک طویل ذلت کی زنگدی اور بت پرستانہ فرعونیت کی غلامی نے ان کا ضمیر بدل دیا تھا۔ وہ مشقت برداشت کرنے کے قابل نہ تھے۔ نہ مشکلات میں صبر کرسکتے تھے اور نہ کسی قول وقرار پر ثابت قدم رہ سکتے تھے۔ ان کے شعور میں غلامی تقلید اور سہل پسندی رچ بس گئی تھی۔ جونہی موسیٰ ان کو حضرت ہارون کی نگرانی میں چھوڑ کر ان سے ذرا دور ہوئے ان کے عقائد بدل گئے اور پہلی ہی آزمائش میں وہ چار شانے چت ہوگئے۔ ان کے لئے تو مسلسل امتحان ضروری تھا اور مسلسل مشکلات اور آزمائمشوں میں ان کو بار بار ڈالنا ضروری تھا تاکہ ان کی نفسیاتی تربیت ہو۔ گو سالہ پرستی ان کی پہلی آزمائش تھی ، یہ ایک مصنوعی بچھڑا تھا جو سامری نے ان کے لئے تیار کیا تھا۔