وانی لغفار لمن تاب و امن و عمل صالحا ثم اھتدی (02 : 28) ” البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے ، پھر سیدھا چلے ، اس کے لئے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ “ یہ یاد رہے کہ توبہ صرف لفظ کا نام نہیں ہے کہ کوئی اسے گائے بلکہ یہ تو قلبی عزم کا نام ہے۔ اس کے مفہوم کا تعین ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ہی ہوتا ہے اور اس کا ظہور عالم واقعہ میں انسانی طرز عمل سے ہوتا ہے۔ اگر توبہ کرلی ، ایمان درست رہا اور عمل نے اس کی تصدیق کی تو تب انسان کو ہدایت یافتہ انسان کہا جاسکتا ہے ، انسان ہدایت اور عمل صالح کی ضمانت غرض جب توبہ کے بعد ہدایت نہ ہو یعنی عملی تبدیلی نہ ہو تو توبہ کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔
یہاں تک ہم بنی اسرائیل کی کامیابی اور اس پر تبصرہ و نصیحت کا منظر دیکھ رہے تھے ، اب پردہ گرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے منظر میں حضرت موسیٰ طور ایمان پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ طور پر چالیس روز گزاریں اور اس کے بعد اللہ سے ہم کلا مہو کر اس سے احکام لیں۔ یعنی شکست کے بعد فتح حاصل کرنے کے احکام۔ فتح حاصل کرنا کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے۔ ہر نظریہ کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ نیز احکام لینے کے لئے نفسیاتی تیاری اور اپنے اندر استعداد پیدا کرنا کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے۔ ہر نظریہ کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ نیز احکام لینے کے لئے نفسیاتی تیاری اور اپنے اندر استعداد پیدا کرنا بھی ضروری تھا۔ حضرت موسیٰ پہاڑ پر چڑھ گئے اور قوم کو نیچے چھوڑ دیا اور حضرت ہارون کو ان میں اپنا نائب مقرر کیا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس ملاقات کا بےحد شوق تھا ، اللہ کے سامنے حاضری دینا بڑا اعزاز تھا ، وہ اس کے لئے بےتاب تھے۔ اس سے قبل وہ اللہ کے ساتھ ہمکلامی کی مٹھاس چکھ چکے تھے۔ اس لئے وہ بےحد شوق سے جلدی میں طور پر پہنچ گئے۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہوگئے ، لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی قوم نے ان کے بعد کیا گل کھلائے ہیں کیونکہ وہ ان کو پہاڑ کے نیچے چھوڑ آئے تھے۔
یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو رب تعالیٰ بتا دیتے ہیں کہ تمہارے بعد بنی اسرائیل نے کیا حرکت کی ہے۔ ذرا منظر کو دیکھیں اور گفتگو سنیں :