جادوگروں سے مقابلہ کے بعد حضرت موسیٰ کئی سال مصر میں رہے۔ ایک طرف انھوں نے فرعون اور قوم فرعون پر اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ دوسری طرف انھوں نے مطالبہ کیا کہ مجھ کو اجازت دے دو کہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر سے باہر صحرائے سینا میں چلا جاؤں اور وہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کروں۔ مگر فرعون نے نہ تو نصیحت قبول کی اور نہ حضرت موسیٰ کو باہر جانے کی اجازت دی۔
آخر کار حضرت موسیٰ نے خداکے حکم سے خاموش ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مصر میں جو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی مسلمان تھے، سب پیشگی منصوبہ کے تحت ایک خاص مقام پر جمع ہوئے اور وہاں سے رات کے وقت اجتماعی طورپرروانہ ہوگئے۔
یہ قافلہ بحر احمر کی شمالی خلیج تک پہنچا تھا کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا وہاں آگیا۔ پیچھے فرعون کا لشکر تھا اور آگے سمندر کی مانند وسیع خلیج۔ اب حضرت موسیٰ نے خلیج کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری۔ خدا کے حکم سے پانی دو ٹکڑے ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی اس کے درمیان خشکی پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر فرعون بھی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ مگر فرعون اور اس کا لشکر جیسے ہی درمیان میں پہنچے دونوں طرف کا پانی مل گیا۔ وہ لوگ اس کے اندر غرق ہوگئے— ایک ہی دریا خدا کے وفادار بندوں کے لیے نجات کا راستہ بن گیا۔ اور خدا کے دشمنوں کے لیے موت کا گڑھا۔
لوگ اکثر اپنے قائدین کے بھروسہ پر حق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر فرعون کی مثال بتاتی ہے کہ قائدین کا سہارا نہایت کمزور سہارا ہے۔ اس دنیا میں اصل سہارے والا وہ ہے جو خدا کی آیات کی بنیاد پر اپنی راہ متعین کرے، نہ کہ قوم کے اکابر کی بنیاد پر۔