You are reading a tafsir for the group of verses 20:77 to 20:79
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ولقد اوحینآ الی ……ھدی (97)

یہاں قرآن مجید نے وہ تمام واقعات حذف کردیئے ہیں جو جادوگروں کے ساتھ مقابلے کے بعد پیش آئے۔ فرعون نے جادوگروں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جبکہ وہ اپنی قوت ایمانی کیس اتھ فرعون کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ وہ اس کی دھمکیوں سے نہ ڈرے ، انہوں نے حیات دنیا کے بارے میں اپنا جدید نظر یہ فرعون کے سامنے بڑی بےباکی سے پیش کیا۔ ان سب واقعات کو چھوڑ کر یہاں اب فتح ظاہری کا یہ منظر دکھایا جاتا ہے ، تاکہ قلبی اور نظریاتی فتح کے بعد اب میدانی فتح کو دکھایا جائے اور اللہ کی نصرت اور مدد اہل ایمان کو بچشم سر نظر آجائے۔ مکمل اور فیصلہ کن فتح۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس منظر سے قبل بنی اسرائیل کے منظر خروج اور سمندر کے سامنے ان کے کھڑے ہونے کے مناظر کو طول نہیں دیا گیا ، جس طرح ان مناظر کو دوسری سورتوں میں مفصل دکھایا گیا۔ بلکہ چند جھلکیوں کے بعد مکمل فتح ہمارے سامنے ہے کیونکہ یہ تمام حذف شدہ مناظر ذہن انسانی خود سوچ سکتا ہے۔ اس لئے یہ تخیل پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ وہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل جائیں۔ سمندر میں ان کو خشک راہ مل جائے گی اور فرعون کے لشکر ان کو نہ پکڑ سکیں گے۔ سمندر میں بننے والے خشک راستوں میں بھی خوف نہ کھائو ، اللہ نے سمندر میں پانی کو جس قانون کے مطابق رکھا ہوا ہے وہ اسے کچھ دیر کے لئے اپنی طبیعی ڈگر سے ہٹا بھی سکتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جب موسیٰ نکلے تو :

فاتبعھم ……وما ھدی (98) (02 : 88-98) ” پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا اور پھر سمندر ان پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا ، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ “

قرآن مجید یہاں فرعون کی غرقابی کا بھی مجملاً ذکر کرتا ہے۔ تفصیلات نہیں دی جاتیں تاکہ یہ واقعہ مجمل ہی رہے۔ فرعون نے زنگدی بھر اپنی قوم کی قیادت فسق و فجور اور ضلالت میں کی اور اب تباہی اور بربادی کے وقت بھی سمندر میں اس نے اپنی قوم کی قیادت کی۔ جس طرح اس واقعہ کی اس کڑی کو یہاں قرآن مجید نے خاص حکمت کے تحت مجمل چھوڑا ہے ہم بھی اسے مجمل ہی رہنے دیتی ہیں۔ مناسب ہے کہ اس منظر سے ہمیں جو سبق حاصل ہوتا ہے اور اس منظر میں واقعات کا جو اثر دلوں پر ہوتا ہے اس کے حوالے سے بحث کی جائے۔

اس قصے میں پہلی عبرت یہ ہے کہ دست قدرت نے ایمان اور سرکشی کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ان کے درمیان معرکہ برپا کیا گیا ہے ، اس معرکہ میں اہل ایمان سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا کہ بس وہ فقط احکام کی اطاعت کرتے چلے جائیں۔ حکم ہوا کہ تم رات کو نکل پڑو اس لئے کہ دونوں محاذوں کے درمیان جنگی قوت کا توازن نہ تھا۔ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو ان دو قوتوں کے درمیان کوئی نسبت ہی نہ تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم ضعیف ہیں۔ ان کے پاس کوئی مادی قوت نہیں ہے۔ جبکہ فرعون اور اس کی افواج ہر قسم کی قوت رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان کسی مادی جنگ کا کوئی موقع ہی نہیں ہے اس لئے یہ جنگ دست قدرت نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ لیکن جب اہل ایمان کے دلوں میں ایمانی قوت مضبوط ہوگئی ، ایمان ان کے دلوں میں اچھی طرح داخل ہوگیا اور اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی مادی قوت نہ تھی تو قوت ایمانی نے ایک سرکش مقتدر اعلیٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اس کی دھمکیوں سے نہ ڈری اور اہل اقتدار کے پاس جو دولت اور عزت تھی اسے خاطر میں نہ لائی۔ سرکش ڈکٹیٹر نے کہا

فلاقطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف وانا وصلبنکم فی حذوع النخل (18) ” میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں سولی دوں گا۔ “ تو جواب میں انہوں نے کہا۔

فاقض ما انت قاض انما تقضی ھذہ الحیوۃ الدنیا (02 : 28) ” تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے تو زیادہ سے زیادہ بس اس دنیا کی زنگدی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ “ جب دلوں کے میدان میں نظریاتی اور ایمانی قوت اور سرکشی اور اقتدار کی قوت کے درمیان معرکہ یہاں تک پہنچ گیا تو اب دست قدرت نے ایمان کا جھنڈا اٹھا لیا تاکہ اسے بلند کر دے اور اہل باطل کا جھنڈا سرنگوں کردیا گیا بغیر اس کے کہ اہل حق اس کے لئے کوئی مادی جدوجہد کریں۔

دوسری عبرت یہ ہے کہ جب تک بنی اسرائیل ذلت اور غلامی کا ٹیکس فرعون کو ادا کرتے رہے ان کے بیٹے قتل ہوتے رہے اور ان کی بیٹیاں زندہ چھوڑی جاتی رہیں تو دست قدرت ان کی امداد کے لئے بلند نہ ہوا اور یہ معرکہ آرائی نہ کرائی گئی۔ کیونکہ وہ یہ ٹیکس محض ذلت ، غلامی اور خوف کی وجہ سے ادا کرتے رہے لیکن جب ان لوگوں کے دلوں میں ایمان سربلند ہوگیا اور انہوں نے ایمان کی راہ میں مشکلات اور تشدد برداشت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب انہوں نے سر اٹھا کے چلنے کی رسم ڈال لی۔ کلمہ حق بلند کرنا شروع کردیا اور فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کردیا اور یہ کام انہوں نے ہر قسم کا خطرہ انگیز کرتے ہوئے کیا تو پھر دست قدرت ان کی مدد کے لئے بلند ہوا۔ یہ معرکہ شروع ہوا ، اس وقت جبکہ میدانی فتح سے قبل اہل ایمان دل کی دنیا میں فتح پا چکے تھے۔

اس اجمال کے ذریعے یہاں قرآن کریم یہی عبرت اور سبق دینا چاہتا ہے اور ان مناظر میں تفصیلات یعنی جزوی تفصیلات نہیں دی گئی تاکہ دعوت اسلامی کے حاملین کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کی طرف سے ان کی نصرت کب ہوگی اور باغیوں اور سرکشوں کے ماقبلے میں فتح کب نصیب ہوگی۔

جب بنی اسرائیل فتح و نصرت کے جھنڈے اٹھاتے ہوئے ایک آزاد فضا میں قدم رکھ رہے تھے تو اب ان کو صنیحت کی جاتی ہے ، سچائی کا سبق یاد کرایا جاتا ہے اور انجام بد سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تاکہ وہ اس سبق کو بھول نہ جائیں جو فرعون و موسیٰ کی کشمکش سے حاصل ہوتا ہے ۔ اب آزادی اور اقتدار کی فضا کہیں ان کو کبر و غرور میں مبتلا نہ کر دے اور وہ اس ساز و سامان کو نظر انداز نہ کردیں جس کی وجہ سے انہیں طاقت کے عدم توازن کے باوجود ، فتح نصیب ہوئی کیونکہ یہ اصل قوت ، قوت ایمانی ہی ہر میدان میں فتح کی ضامن ہے۔