You are reading a tafsir for the group of verses 20:74 to 20:76
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

انہ من یات ……تزکی (67)

اس نے ان کو دھمکی دی تھی کہ کون سخت ہے اور کس کا اقتدار دائمی ہے تو وہ پیش کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے سامنے مجرم بن کر آئے تو اس کو شدید عذاب ملتا ہے اور وہ عذاب دوزخ ہوتا ہے کیونکہ

فان لہ جھنم لا یموت فیھا ولا یحییٰ (02 : 38) ” اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور جیے گا۔ “ نہ وہ مر کر آرام کرے گا اور نہ زندہ رہ کر آرام میں ہوگا۔ وہ ایسا عذاب ہوگا کہ اس کے نتیجے میں موت بھی واقع نہ ہوگی ، نہ آرام کی زندگی ملے گی جبکہ دوسری جانب بلند درجے ہیں۔ ایسے باغات ہیں اور ان میں ایسے بالا خانے ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔

وذلک جزوا من تزکی (02 : 68) ” اور یہ جزاء ہے اس شخص کی جو پاکیزگی ” اختیار کرے۔ “ اور گناہوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ ایک سرکش اور تشدد پسند مقتدر اعلیٰ کی دھمکی جس نے اہل ایمان کے دلوں کو ہلاک کر رکھ دیا ، لیکن جواب میں انہوں نے بھی قوت ایمانی کے ساتھ جواب دیا۔ ایمان کی سربلندی کا ثبوت دیا اور اس سرکش کو انجام ہد سے ڈرایا اور اسے گہرے ایمان کی چمک دکھائی۔

یہ منظر اب آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن اس نے ثابت کردیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل ہوجاتا ہے تو وہ اس دنیا کے حدود وقیود کو پار کر کے ، اپنی آزادی اور حریت کا اعلان کردیتے ہیں۔ ان دلوں میں پھر طمع و لالچ نہیں رہتا ، ان کے سامنے زمین کا اقتدار ہیچ ہوتا ہے۔ اہل اقتدار کے ڈر سے وہ بےنیاز ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اور قلب انسانی آزادی کا یہ اعلان صرف ایمانی قوت کے بل بوتے پر کرسکتا ہے۔ اب پردہ گرتا ہے ، تاکہ اس قصے کی ایک جدید کڑی کو اسٹیج پر لایا جائے۔

یہ وہ منظر ہے جس میں ایک سچی جماعت کو اس کرئہ ارض پر بھی کامیابی نصیب ہوتی ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ نظریات اور ایمان کی دنیا میں اخلاقی فتح حاصل کرلیتی ہے۔ سیاق کلام میں عصا کو جادوگری پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ جادوگروں کے ایمان کو فرعون پر اخلاقی فتح حاصل ہوچکی ہے۔ ایمان کے بعد ان کو تمام دنیاوی خوف و خطر پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ وہ اب دھمکی اور دھونس سے نہیں ڈرتے۔ اب حق باطل پر ، ایمان ضلالت پر ، حق سرکشی پر عالم واقعہ میں فتح حصال کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ آخری فتح مشروط ہے ایمانی اور نظریاتی فتح کے ساتھ۔ واقعہ ار میدان جنگ میں فتح تب ہوتی ہے جب ضمیر کے اندر کوئی گروہ فاتح ہو۔ اہل حق کو ظاہری فتح ، ان کے باطن کی فتح کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایمان اور نظریات اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت جب انسان کے شعور اور اس کی سوچ میں مجسم ہوتی ہے تو پھر یہ باہر نکلتی ہے اور لوگ اسے واقعی صورت میں زمین پر دیکھتے ہیں۔ اگر ایمان دلوں کے اندر مجسم شکل میں موجود نہ ہو ، اور سچائی ایک شعاع اور عمل کی شکل میں دلوں سے بہہ کر نکلتی ہو تو ایسے حالات میں سرکش اہل باطل ہی غالب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی مادی قوت کے مالک ہوتے ہیں جس کے مقابلے کے لئے ایمانی قوت بھی اہل حق کے ساتھ نہیں ہوتی اور قوت کا توازن نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قلب اور دل میں ایمان ایک حقیقی قوت کی شکل میں موجود ہو۔ یہ ایمانی قوت اگر کسی کے اندر موجود ہو تو وہ بڑی سے بڑی مادی قوت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہی موقف تھا جو انہوں نے جادو گروں ، فرعون اور سرداران فرعن کے مقابلے میں اختیار کیا ۔ وہ ایمانی اور نظریاتی اور اخلاقی کامیابی کے بعد اس سر زمین پر بھی کامیاب ہوئے۔ ذرا اس منظر کو دیکھیے۔