undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

’ قال امنتم لہ قبل ان اذن لکم (02 : 18) ” تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں جازت دیتا۔ “ یہ ایک سرکش حکمران کی سوچ ہے۔ وہ اس قدر بھی نہیں جانتا کہ یہ بیچارے خود بھی اب اپنے نفوس و قلوب کے مالک نہیں رہے۔ ان کے دلوں پر ایمان چھا گیا ہے۔ یہ خود بھی ایمان کو اب دل سے نکال نہیں سکتے۔ دل تو رحمٰن کی دو انگلیوں میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔

انہ لکبیرکم ……السحر (02 : 18) ” معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارا گروہ ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔ “ اس شخص کی نظروں میں شکست تسلیم کرنے کی اصل وجہ یہ ہے۔ یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان اس راستے سے داخل ہوگیا جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے قلب و نظر پر پڑے ہوئے پردے ہٹا دیئے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقی وجوہات ہیں۔

سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سخت ترین تشدد کی دھمکی دیتے ہیں اور جب وہ لوگوں کے دلوں کو نہیں بدل سکتے تو وہ لوگوں کے جسم اور بدن کو اذیت دیتے ہیں۔ ان کا آخری حربہ یہی ہوتا ہے۔

فلا قطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ولاوصلبنکم فی حذوع النخل (02 : 18) ” اچھا ، اب میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سولی دیتا ہوں۔ “

ڈکٹیٹر کا ہتھیار اندھی قوت کا استعمال ہے۔ جانوروں اور درندو کی قوت جو جنگل کے قانون کے نام سے مشہور ہوتی ہے۔ وہ قوت جو کسی کمزور کو چیر پھاڑ کر رکھا جاتای ہے۔ اس کے خیال میں انسان کے درمیان جو دلیل سے بات کرتا ہے اور اس حیوان کے رمیان جو نیچے سے بات کرتا ہے ، کوئی فرق نہیں ہوتا۔

ولتعلمن اینا اشدعاذاباً و ابقی (02 : 18) ” پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ “

لیکن اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ ایمان کے احساس نے اس نہایت ہی حقیر ذرے کو ایک عظیم قوت سے ملا دیا تھا۔ یہ ذرہ اب عظیم قوت کا سرچشمہ تھا۔ اس کے سامنے فرعون جیسی عظیم قوت بھی ہیچ ہے۔ اب ان جادوگروں کے سامنے دنیا کی اس مختصر زنگدی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کے دلوں کے سامنے نہایت ہی روشن اور کھلی دنیا کے آفاق کھل گئے تھے۔ اب ان کے سامنے اس دنیا اور اس کے انعام و اکرام کی حقیقت ہی کیا رہ گئی تھی۔ دنیا کا مال و متاع ان کی نظروں میں اب بےوقعت تھا۔