مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔