حضرت موسیٰ کی ابتدائی تقریر سے جادو گروں کی جماعت میں اختلاف پڑگیا۔ ان کے ایک گروہ نے کہا کہ یہ جادوگر کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ نبی کا کلام ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ نہیں، یہ شخص ہماری ہی طرح کا ایک جادوگر ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ
جادو گر یقینی طورپر اپنے ہم جنسوں کو پہچانتے تھے۔ ان کے تجربہ کار افراد نے محسوس کرلیا کہ یہ جادو کا معاملہ نہیں ہے بلکہ معجزہ کا معاملہ ہے۔ چنانچہ وہ مقابلہ کی ہمت کھوبیٹھے۔ مگر فرعون اور اس کے پر جوش ساتھیوں کے اکسانے پر وہ مقابلہ کے لیے راضی ہوگئے۔
’’蒫薫 ⊀蚫‘‘ کا مطلب ہے افضل طریقہ۔ اس وقت مصریوں کی زندگی کا پورا ڈھانچہ مشرکانہ عقائد کے اوپر قائم تھا۔ سب سے بڑے دیوتا (سورج) کے جسمانی مظہر کی حیثیت سے فرعون کی شخصیت ان کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیاد بنی ہوئی تھی۔ فرعون نے تعصب کے جذبات کو ابھار کر کہا کہ یہ نظام ہمارا قومی نظام ہے۔ اب اگر توحید کے ان علم برداروں کی جیت ہوگئی تو ہمارا پورا قومی نظام اکھڑ جائے گا۔