آیت 51 قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی ”یعنی اگر ہم تمہارا یہ دعویٰ تسلیم کرلیں کہ تم اللہ کے رسول ہو اور تمہاری پیروی میں ہی ہدایت ہے تو پھر ہمارے آباء و اَجداد جو اس سے پہلے فوت ہوچکے ہیں ‘ ہماری کئی نسلیں جو اس دنیا سے جا چکی ہیں ‘ ان کے پاس تو کوئی رسول نہیں آیا تھا ‘ ان تک ایسی کوئی دعوت نہیں پہنچی تھی اور وہ اسی طریقے پر فوت ہوئے جسے تم گمراہی قرار دے رہے ہو۔ تو ان سب لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے ؟ ان سب کا کیا بنے گا ؟یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا جس کا جواب بڑے حکیمانہ انداز میں دینے کی ضرورت تھی۔ ہمارے جیسا کوئی داعی ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ سب جہنمی ہیں ! ایسے جواب کے ردِّ عمل کے طور پر مخاطبین کی اپنے اسلاف کے بارے میں عصبیت و حمیت کو ہوا ملتی اور صورت حال بگڑ جاتی۔ بہر حال حکمت تبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت کے دوران مخاطبین کے جذبات اور مخصوص موقع محل کو مد نظر رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی منفی صورت حال پیدا نہ ہونے پائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کمال حکمت سے جواب دیا :