You are reading a tafsir for the group of verses 20:49 to 20:50
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب وہ فرعون کے دربار میں ہیں ، قرآن اس بات کا تذکرہ نہیں کرتا کہ وہ کس طرح پہنچے ، بہرحال وہ پہنچ گئے۔ ان کا رب ان کے ساتھ ہے اور دیکھ رہا ہے۔ موسیٰ اور ہارون نے نہایت ہی قوت اور اعتماد سے بات کرتے ہوئے دعوت پہنچائی۔ فرعون جو چاہے ہو ، وہ اسے ملے۔ انہوں نے ، جس طرح اللہ نے بتایا تھا اسے دعوت دی۔ یہ دوسرا منظر اب اس گفتگو سے شروع ہوتا ہے جو ان دونوں اور فرعون کے درمیان ہوئی :

قال ……ھدی (05)

یہ شخص یہ اعتراف نہیں کرتا کہ موسیٰ و ہارون کا رب ہی اس کا رب ہے ، جس طرح انہوں نے کہہ دیا کہ ہم دونوں اللہ تمہارے رب کے رسول ہیں۔ یہ شخص موسیٰ سے مخاطب ہوتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ اصل صاحب دعوت موسیٰ ہی ہیں۔

قال فمن ربکما یموسی (02 : 93) ” تم دونوں کا وہ رب کون ہے جس کے نام سے تم بات کرتے ہو اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہو۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے سامنے اللہ کی جس صفت کا ذکر کرتے ہیں وہ اللہ کی صفت تخلیق اور صفت تدبیر ہے۔

قال ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی (02 : 05) ” موسیٰ نے کہا ، ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی۔ پھر اس کو راستہ بتایا۔ “ رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو وجود بخشا اور ایک مناسب صورت اور فطرت بھی عطا کی۔ اس کے بعد اس کو وہ طریقہ بتایا جس کے مطابق وہ اپنا فریضہ منصبی پوری طرح ادا کرسکے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا اور اسے وہ تمام سہولیات بھی عطا کردیں جو اس کے فریضہ منصبی کی ادائیگی کے لئے ضروری تھیں۔ یہاں لفظ ثم (تراخی زمانی) کے لئے نہیں ہے یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے پیدا کیا ، بعد میں عقلاً اسے ہدایت دی بلکہ پیدائش کے ساتھ ہی وہ فطری صلاحیت بھی عطا کردی۔ خلق و ہدایت میں فرق صرف مرتبہ و اہمیت کے اعتبار سے ہے یعنی تخلیق زیادہ اہم ہے اور ہدایت اور فرائض منصبی کی صلاحیت اور اسباب فراہم کرنا اس کے تابع ہے۔ عقلاً یہ خلق کے بعد ثانوی چیز ہے۔

یہ صفت جس کا ذکر قرآن کریم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی کیا ، یہ خدا کی تخلیق کے اعلیٰ ترین آثار کا خلاصہ ہے۔ یعنی کسی چیز کی تخلیق اور اسے اپنا فریضہ تخلیق ادا کرنے کے لئے فطری ہدایت اور سہولیات کی فراہمی ، انسان جب اس کائنات وسیع و عریض میں اپنی بصارت اور بصیرت دونوں کو کام لا کر غور کرتا ہے ، اپنے علم و مشاہدے کی حد تک ، تو ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر اسے قدرت کی یہ خالقیت اور تدبیر واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے جسم ذرہ اور بڑے سے بڑے زندہ جسم میں ، مساوی طور پر ابتدائی خلیے میں بھی اور انسان جیسے پیچیدہ مخلوق میں بھی یہ سب صفات اور قدرت کے یہ کرشمے نظر آتے ہیں۔

کائنات کا یہ عظیم وجود جس میں لاتعداد ذرے ، خلیے ، مخلوقات ، زندہ اور غیر زندہ اس کا ہر خلیہ ایک خاص زندگی کا مالک ہے اور متحرک ہے۔ اس کی ہر زندہ چیز متحرک ہے۔ اس کا ہر موجود دور سے کے ساتھ منسلک ہے ، ان میں سے ہر چیز انفرادی طور پر بھی اور دوسروں کے ساتھ مل کر بھی ، قوانین قدرت کے مطابق ، بغیر کسی ٹکرائو کے وظیفہ فطرت اور غرض تخلیق پورا کر رہی ہے اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس وسیع کائنات کے پیچیدہ نظام میں کوئی خلل نہیں ڈالتی۔

اگر ہم کسی ایک مخلوق و موجود کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اپنی ذات میں ایک کائنات ہے۔ وہ اپنے اندر اپنے ذرات ، اپنے خلیوں ، اپنے اعضاء اور اپنے اعصاب کے مطابق تقاضائے فطرت پورے کر رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اس پوری کائنات کے نظام فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے اور یہ سب کچھ نہایت ہی باریک انتظام اور توافق کے ساتھ چلتا ہے۔

اس پوری کائنات کو تو ایک طرف رہنے دیں ، کائنات کی کسی ایک مخلوق کو آپ لے لیں ، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے ، اس کی حقیقت معلوم کرنے ، صحت اور بیماری معلوم کرنے میں انسان اپنی وسیع کوششوں کے باوجود اور وسعت علم کے باوجود قاصر ہے۔ کسی ایک چیز کے مالہ و ماعلیہ کا علم وہ تمام نہیں کرسکا چہ جائیکہ وہ تحقیق کر کے سکے یا فطرت دے سکے اور ہدایت دے سکے یا اس ہئیت و شکل دے سکے۔ تمام اشیاء میں سے کسی ایک چیز کو بھی …واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ الہ واحد کا کام ہے ، وہی ہمارا رب ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا اور ہدایت دی۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%