’’تمھارا رب کون ہے‘‘— فرعون کا یہ جملہ اس معنی میں نہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی خدا سے بے خبر تھا۔ یا کسی برتر خدا کا سرے سے قائل نہ تھا۔ اس کا یہ جملہ دراصل موسیٰ کی بات کی تحقیر تھا، نہ کہ اس کا سرے سے انکار۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ کی تھی۔اب بھی بنی اسرائیل وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، جو خدائے واحد پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس طرح مصر میں اگرچہ خدائے برتر کا عقیدہ موجود تھا مگر عملاً وہاں سارا زور اور شان وشوکت فرعون کے گرد جمع تھي۔ وہ مصریوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے سب سے بڑے دیوتا (سورج) کا زمینی مظہر تھا۔ وہ مصر کا اوتاربادشاہ (God-king) تھا اور اس کے بت اور اسٹیچو سارے مصر میں پرستش کی چیز بنے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلہ میں موسیٰ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو مصر میں غلاموں اور مزدوروں کی ایک قوم سمجھی جاتی تھی۔ اور اس بنا پر اس کا مذہبی عقیدہ بھی مصر میں ایک ناقابلِ ذکر عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ہیںمگر ہر چیز کی ایک منفرد بناوٹ ہے اور ہر چیز کا ایک متعین طریقِ عمل ہے۔ نہ اس بناوٹ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اس طریقِ عمل میں۔ اس سے خود فرعون جیسا سرکش بادشاہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر ایک بالا تر خالق کا وجود ثابت کرتاہے۔
حضرت موسیٰ نے یہ بات کہی تو فر عون نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ہے۔ اب اس نے بات کو پھیر دیا۔ دلیل کے میدان میں اپنے کو کمزور پاکر اس نے چاہا کہ تعصب کے جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کے درمیان اپنی برتری قائم رکھے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر تمھاری بات صحیح ہے تو ہمارے پچھلے بڑوں کا انجام کیا ہوا جو تمھارے نظریہ کے مطابق گمراہ حالت میں مرگئے۔ حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں اعراض کا طریقہ اختیا رکیا۔ انھوںنے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کو خدا کے حوالے کرو اور اب اپنے بارے میں غور کرو۔
0%