You are reading a tafsir for the group of verses 20:47 to 20:48
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فاتیہ فقولاً ……وتولی (83) (02 : 83-83) ” جائو اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے اور سلامتی ہے اس کے لئے جو راہ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لئے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ “

اللہ نے آغاز ہی میں بتا دیا کہ ان کی رسالت کی دعوت کیا ہے۔

انا رسول ربک (83) ” ہم تیرے رب کے دو فرستادے ہیں۔ “ پہلی آاز میں اس کو یہ بتا دیا جائے کہ تمہارے ساتھ اور ایک ذات رب ہے ، لوگوں کا بھی رب ہے ، یہ صرف وسیٰ اور ہارون کا خدا اور رب نہیں۔ نہ وہ صرف بنی اسرائیل کا رب ہے۔ جیسا کہ اس وقت کی بت پرستانہ خرافات میں یہ عقیدہ ہوتا تھا کہ ہر قوم کا ایک رب ہوتا ہے اور ہر قبیلے کا اپنا خدا یا دیوتا ہوتا ہے۔ ایک یا زیادہ ، خود مصر کی تاریخ میں یہ تصور موجود رہا ہے کہ فرعون بھی رب تھا کیونکہ وہ دیوتائوں کی نسل سے تھا۔

اس کے بعد ان کی رسالت کے اصل موضوع اور مضمون کی وضاحت کی جاتی ہے۔

فارسل معنا بنی اسرآئیل ولاتعذبھم (02 : 83) ” بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ “ فرعون سے ان کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ تم بنی اسرائیل کو رہائی دو ، وہ عقیدئہ توحید کی طرف واپس آجائیں ، اس سر زمین کی طرف واپس آجائیں جو اللہ نے ان کے لئے لکھی ہے کہ وہ یہاں رہیں گے یہاں تک کہ وہ اس میں فساد برپا کردیں اور مکمل طور پر تباہ کردیئے جائیں ۔

اس کے بعد ان کو بتایا جاتا ہے کہ تمہاری رسالت کی سچائی پر شہادت یہ ہوگی۔

قد جئنک بایۃ من ربک (02 : 83) ” ہم تیرے پاس رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ “ یہ نشانی ، یہ معجزہ ہماری سچائی پر دلیل صادق ہے۔ اللہ کے حکم سے آنا تمہاری سچائی کی دلیل ہے۔

اس کے بعد اسے ترغیب دی جاتی ہے اور دعوت قبول کرنے کی طرف اسے مسائل کیا جاتا ہے۔

والسلم علی من اتبع الھدی (02 : 83) ” اور سلامتی ہے اس کے لئے جو راہ راست کی پیروی کرے۔ “ شاید کہ وہ راہ ہدایت پالے اور ان سے اسلام کی دعوت سیکھ لے۔

اس کے بعد نہایت ہی عمدہ اور بالواسطہ طرز کلام میں اس کو کہا جاتا ہے تاکہ اسے غصہ نہ آجائے اور اس کو اپنے غرور کی وجہ سے بات بری نہ لگے۔

انا قداوحی الینا ان العذاب علی من کذب وتولی (02 : 83) ” ہم کو حی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لئے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ “ ہو سکتا ہے کہ تم ان میں سے نہ ہو اور یہ بات ہم نہیں کہتے ، ہم پر وحی آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ و ہارون کو دولت اطمینان سے مالا مال کر کے ، دعوت کا طریق کار سمجھا کر بھیجا تاکہ وہ پوری طرح تیار ہو کر اپنا مشن اچھی طرح جانتے ہوئے جائیں۔ اب پردہ گر جاتا ہے ، اگلا منظر فرعون کا دربار ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%