undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

قالا ابنا اننا۔۔۔۔۔۔ علی من کذب و تولی ( 54 تا 84 ) ” ۔

اس سے قبل جو طویل بحث ہوئی تھی اور جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رب تعالیٰ کے ساتھ وادی طوی میں ہم کلام تھے ‘ اس میں حضرت ہارون موجود نہ تھے۔ وہ ایک طویل مناجات تھی اور وسیع سوال و جواب اس میں ہوتے رہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں کا یہ جواب

اننا نخاف ان۔۔۔۔۔۔ ان یطغیٰ (02 : 54) ” دونوں نے عرض کیا پروردگار ‘ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا “۔ وادی طوی میں مناجات کی جگہ میں نہ تھا۔ قرآن کریم کا قصص کے بارے میں یہ طریقہ ہے کہ وہ قصص کے غیر ضروری حصے درمیان میں سے کاٹ دیتا ہے اور قصص کے جو مناظر وہ دکھاتا ہے اس کے درمیان ایک واضح خلا (Gap ) چھوڑ دیتا ہے۔ یہ خلا عقل انسانی خود پر کردیتی ہے اور سیاق کلام یا منظر آگے بڑھ کر زیادہ موثر اور زیادہ مفید ‘ زندہ اور متحرک مناظر پیش کرنا شروع کردیتا ہے جن کا انسان کے وجدان پر اثر ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ طور سے واپسی پر ‘ موسیٰ (علیہ السلام) مصر پہنچے ‘ اللہ نے حضرت ہارون کو بھی یہ منصب دے دیا اور ان کو بھی یہ حکم دے دیا گیا کہ تم حضرت موسیٰ کے معاون پیغمبر ہو۔ اور تمہیں بھی بھائی کے ساتھ فرعون کو دعوت دینے کے لئے جانا ہے۔ اب جب وہ تیاریاں کر کے جانے لگتے ہیں تو پھر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔

قالا ربنا اننا۔۔۔۔۔ او ان یطغی (02 : 54) ” دونوں عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پل پڑے گا “۔

فرط کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ کوئی جلدی سے کسی کو اذیت دے۔ فوراً بات کرتے ہیں اور طغیان کا مفہوم فرط اور اذیت سے زیادہ جامع ہے اور فرعون ان دنوں ایک ایسا جبار حکمران تھا جس سے سب کچھ متوقع تھا۔

یہاں اب ان کو فیصلہ کن تسلی دے دی جاتی ہے جس کے بعد نہ کوئی خوف رہتا ہے اور نہ خدشہ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%