You are reading a tafsir for the group of verses 20:42 to 20:44
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اذھب انت و اخوک۔۔۔۔۔ او یخشی (24 تا 44) ” ۔

تم اور تمہارے بھائی دونوں میرے معجزات کے ساتھ مسلح ہو کر جائو ‘ انن میں سے معجزہ عصا اور ید بیضا کا مشاہدہ تو کرایا جاچکا ہے۔ تم میرے ذکر میں سستی نہ کرنا کیونکہ یہ اس میدان میں تمہارے لئے اہم سازو سامان ہے ‘ یہ تمہارا بڑا اسلحہ اور سہارا ہے اور مشکلات کے وقت یہی تمہارے لئے لیے جائے پناہ ہوگی۔ جائو تم فرعون کے پاس۔ اس سے قبل میں نے تم کو فرعون کے شر سے محفوظ کیا ہے جبکہ تم ایک بچے تھے۔ جسے تابوت میں بند کر کے سمندر کی نذر کردیا گیا تھا اور سمندر نے اسے ساحل پر پھینک دیا تھا تو ان مشکلات نے تمہیں کوئی نقصان نہ دیا۔ ان خوفناگ حالات میں تمہیں کوئی اذیت نہ دی گئی۔ اب تو تم تیاریوں کے ساتھ اس دربار میں جا رہے ہو ‘ تمہارے ساتھ تمہارے بھائی بھی ہیں۔ اس لیے پرواہ مت کرو۔ جبکہ ایسے مشکل حالات میں بھی ہم نے تمہیں نجات دی ہے۔

فرعون کے پاس رسالت لے کر جائو ‘ وہ بڑاسرکش ‘ جبار اور سر پھرا ہے۔

فقولا لہ قولا لبنا (02 : 44) ” اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا “۔ اس لیے کہ نرم بات کے رد عمل میں کوئی شخص اپنی بےعزتی سمجھ کر ضد میں نہیں آتا۔ اور سرکش جس جھوٹی کبریاتی کے ماحول میں رہتے ہیں ‘ اس کی وجہ سے وہ طیش میں نہیں آتے ۔ نرم بات کی یہ خاصیت ہوتے ہے کہ وہ دلوں کو بیدار کردیتی ہے ‘ اور ایک سرکش بھی نرم بات کی وجہ سے اپنے موقف پر غور کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔

تم فرعون کے پاس جائو اور اس بات سے مایوس نہ ہوجانا کہ وہ راہ ہدایت پر کب آسکتا ہے۔ امید رکھنا کہ وہ نصیحت سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے اور اس کے دل میں خدا کا خوف بھی پیدا ہو سکتا ہے ‘ کیونکہ ایک داعی اگر ذہن میں یہ بات بسا لے کہ جس کے پاس وہ جا رہا ہے وہ تو راہ ہدایت پر آہی نہیں سکتا تو وہ پر جوش طریقے سے اسے دعوت نہیں دے سکتا۔ اور اگر وہ انکار کر دے تو یہ ثابت قدمی کے ساتھ دعوت کا مشن جاری نہیں رکھ سکتا۔

اللہ کو تو معلوم تھا کہ فرعون کیا جواب دینے والا ہے۔ لیکن دعوت دینا اور اس کے لئے تمام طریقوں سے جدوجہداختیار کرنا ضروری ہے۔ اللہ کسی شخص کے بارے میں عملی فیصلہ تب ہی کرتا ہے ‘ جب اس سے خیروشر عملاً صادر ہوجائے۔ اگرچہ اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ نتیجہ خیر ہے یا شر۔ اللہ کا علم حادثات مستقبل کے بارے میں ایسا ہی ہے جیسا کہ حاضر کے واقعات کے بارے میں اللہ کا علم ہے یا ماضی کے واقعات کے بارے میں اللہ کا علم ہوتا ہے۔

یہاں تک خطاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا اور یہ منظر وادی طوی میں بندئہ و معبود کے درمیان مناجات کا منظر تھا۔ اب یہاں سیاق کلام میں درمیان کے واقعات کو لپیٹ لیا جاتا ہے۔ زمان و مکان کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ اب موسیٰ اور ہارون دونوں ہیں۔ یہ دونوں دربار میں جانے سے قبل اپنے خدشات کا اظہار پھر کرتے ہیں کہ دربا رفرعون میں انہیں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی بات سنتے ہی وہ کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھے اور جب ان کی بات اسے بری لگے تو وہ سر کشی اختیار کرلے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%