اذ تمشی اختک۔۔۔۔۔۔ عینھا ولا تحزن (02 : 04) ” یاد کرو جب تمہاری بہن چل رہی تھی ‘ پھر جا کر کہتی ہے ” میں تمہیں اس کا پتہ دوں جو اس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے۔ اس طرح ہم نے تجھے پھر اپنی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو “۔ اس سلسلے میں اللہ کی تدبیریوں تھی کہ بچہ کسی دودھ پلانے والی کا پستان منہ میں نہ لیتا تھا۔ فرعون اور اس کی بیوی نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ کسی ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو اس بچے کی پرورش کرے ‘ جس کو دریا نے ساحل پر پھینک دیا تھا۔ لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ماں کی طرف سے اشارہ پا کر کہتی ہے کہ میں تمہیں بتائوں جو اس کی پرورش اچھی طرح کرے۔ یوں اس کی ماں وہاں پہنچ جاتی ہے اور وہ اس کے پستان کو منہ میں لے لیتے ہیں۔ یوں اللہ کی تدبیر اپنے انجام تک پہنچتی ہے کہ ماں جس نے الہامی اشارہ پاکر بچے کو صندوق میں بند کرکے سمندر کے اندر بہا دیا تھا اور سمندر کی لہروں نے اسے ساحل پر پھینک دیا تھا ‘ بچہ پھر اس ماں کی جھولی میں ہے۔ اللہ اس کے بچے کو دشمن سے لے کر ماں کے حوالے کردیتا ہے۔ یوں اس کی پرورش کا محفوظ انتظام کردیا جاتا ہے۔ اور اسے فرعون کے خطرے سے بھی بچا لیا جاتا ہے ‘ جو بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ دشمن خود اسے بچا رہا تھا۔ ایک دوسرا احسان وقتل نفسا۔۔۔۔۔ واصطنعتک لنفسی (02 : 04۔ 14) ” اور تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا ‘ ہم نے تجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے نکالا اور تو مدین کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر ایک ٹھیک وقت پر تو آگیا ہے ‘ اے موسیٰ ۔ میں نے تجھے اپنے کام کا بنا لیا ہے “۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب قصر فرعون میں موسیٰ جو ان ہوگئے۔ ایک دن وہ شہر میں تھے کہ ایک مصری اور ایک اسرائیلی کی باہم تکرار ہوگئی۔ اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد چاہی اور حضرت موسیٰ نے جلدی میں مصری کو ایک مکہ رسید کردیا۔ آپ قتل کرنا نہیں چاہتے تھے ‘ صرف اسے دور کرنا چاہتے تھے۔ اس فعل پر آپ بہت رنجیدہ ہوگئے کیونکہ وہ اللہ کی تربیت میں چل رہے تھے ‘ ان کے ضمیر نے ان کو ملامت کی کہ تم نے گناہ کردیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اللہ نے حضرت موسیٰ کو استغفار سکھایا ہو اور ان کے دل سے یہ کدورت دور ہوگئی ہو ‘ لیکن اس کے باوجود اللہ نے موسیٰ کو بغیر آزمائش اور ابتلا کے نہیں چھوڑا کیونکہ اللہ نے حضرت موسیٰ سے اونچا کام لینا تھا۔ اس لیے خوف ‘ اور ملک چھوڑنے اور قصاص سے بچنے کی مشقت میں ڈالا۔ مسافری ‘ اہل و عیال سے دوری ‘ وطن سے دوری کی مشقتوں میں ڈالا۔ پھر ملازمت اور بھڑیں چرانے کا مشکل کام لیا۔ اور یہ اس شخص سے لیا گیا جو فرعون کے شاہی محل میں پلا ہے ‘ جو اپنے دور کا شہنشاہ اعظم تھا۔ اور اس کے دربار میں بہت بڑے عیش اور اس کے گھر میں تمام سہولیات تھیں جن کا تصور بھی عام لوگ نہ کرسکتے تھے۔
پھر ایک مقررہ وقت پر ‘ جب ان کی تربیت ہوگئی ‘ وہ پختہ ہوگئے۔ ان ابتلائوں میں انہوں نے صبر سیکھ لیا۔ امتحان میں پاس ہوگئے ‘ مصر میں حالات ان کے لئے سازگار ہوگئے۔ بنی اسرائیل پر مظالم انتہا کو پہنچ گئے۔ اس مقررہ وقتپر اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین سے واپس بلایا حالانکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ خود آ رہے ہیں۔
فلبثت سنین فی۔۔۔۔۔ قدر یموسی (02 : 04) ” تو مدین کے لوگوں کئی سال ٹھہرا رہا ‘ پھر ایک ٹھیک وقت پر تو آگیا ہے اس موسیٰ (علیہ السلام) “۔ یعنی ایسے وقت میں جو میں نے تیرے لیے مقرر کیا تھا۔ تجھے اپنی نگرانی میں پالا تھا۔ خالص اپنے لئے ‘ اپنے مشن کے لئے اور دعوت کے لئے۔ اس لئے تیری زندگی میں کوئی چیز نہ اس دنیا سے ہے اور نہ اس دینا کے لئے ہے۔ تیرا سب کچھ میری طرف سے ہے اور اب تو میرے مشن کے لئے ہے۔ تیری تربیت اور اب تیرا مشن بھی میر مشن ہے ۔ اس لئے تیرے نفس میں نہ تیرا حصہ ہے ‘ نہ کسی اور کا کوئی حصہ ہے ‘ نہ تیرے اہل و عیال اور رشتہ داروں کا کوئی حصہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کے لئے میں نے تمہیں تربیت دی ہے ‘ جس مشن کے لئے میں نے تمہیں تیار کیا ہے ‘ آپ اس کے لئے اب چل پڑیں۔
0%