فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ ط ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف کی جانے والی وحی کے بارے میں یہاں مزید تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے براہ راست خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کچھ چیزیں پڑھنے اور سننے والے پر چھوڑ دی جاتی ہیں کہ وہ سیاق وسباق کے مطابق خود سمجھ جائے۔ بہر حال اس واقعہ کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ علیہ السلام کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا۔ آپ علیہ السلام کی بڑی بہن اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق صندوق پر نظر رکھے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ صندوق کے شاہی محل میں پہنچنے کی خبر بھی بچی کے ذریعے والدہ کو مل گئی۔ ادھر فرعون بچے کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس کی بیوی حضرت آسیہ رض جو بنی اسرائیل میں سے تھیں اور نیک خاتون تھیں نے اس کو سمجھایا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہے ‘ یہ بچہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوگا ‘ ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے ‘ چناچہ آپ اسے قتل نہ کریں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ علیہ السلام کے چہرے کو انتہائی پر کشش بنا دیا تھا۔ چناچہ آپ علیہ السلام کی صورت ایسی من مو ہنی تھی کہ ہر شخص دیکھتے ہی آپ علیہ السلام کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ ”اور اے موسیٰ علیہ السلام ! لِتُصْنَعَ کے لفظی معنی ہیں : ”تاکہ تم کو بنایا جائے“۔ اسی مادہ سے لفظ مَصْنَع مشتق ہے جس کے معنی کارخانہ کے ہیں۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کا کارخانہ فرعون کا محل قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ علیہ السلام کی شکل میں ایسی کشش پیدا کردی تھی کہ دشمن بھی دیکھتے تو گرویدہ ہوجاتے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ آپ علیہ السلام کی پرورش کے انتظامات خصوصی طور پر شاہی محل میں کیے جانے منظور تھے۔
0%