پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
0%