پچھلے نبیوں کے واقعات بائبل میں بھی ہیں اور قرآن میں بھی۔ مگر بہت سے مقامات پر قرآن اور بائبل میں بہت بامعنیٰ فرق ہے۔ مثلاً یہاں بائبل میں ہے — موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج،
بائبل حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کو ’’کوڑھ‘‘ بتارہی ہے۔ ایسی حالت میں قرآن میں یدِ بیضاء (چمكتا هاتھ) کے معجزہ کو بیان کرتے ہوئے ’’掀 䊀 삂 ‘‘ کا اضافہ واضح طورپر بتارہا ہے کہ قرآن بائبل سے ماخوذ نہیں۔ بلکہ یہ خدائے عالم الغیب کی طرف سے ہے جو بائبل کی تحریفات کی تصحیح کررہاہے۔
حضرت موسیٰ کو دو خاص معجزے دئے گئے۔ سانپ کا معجزہ آپ کے لیے گویا طاقت کی علامت تھا۔ اور یدِ بیضاء کا معجزہ اس بات کی علامت کہ آپ ایک روشن صداقت پر قائم ہیں۔
فرعون کا حد سے گزرجانا یہ تھا کہ اس کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے کو خدا سمجھ لیا۔ فرعون کے لفظی معنی ہیں سورج کی اولاد۔ قدیم مصری سورج کو سب سے بڑا دیوتا (رب اعلیٰ) سمجھتے تھے۔ چنانچہ فرعون نے اپنے کو سورج دیوتا کا زمینی مظہر بتایا۔ اس نے اپنے اسٹیچو اور بت بنوا کر مصر کے تمام شہروں میں رکھوا دئے جو باقاعدہ پوجے جاتے تھے۔
اقتدار خدا کی ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کو پاکر آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہیے۔ مگر سرکش انسان اقتدار کو پاکر خود اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔