’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔