ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا (02 : 321) ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا ، اس کے لیء دنیا میں تنگ زندگی ہوگی۔ “ وہ زندگی جس میں اللہ سے رابطہ نہ ہو اور جس پر اللہ کی رحمت نہ ہو ، وہ تنگ ہوگی ، اگرچہ بظاہر وہ بہت ہی وسیع ہو۔ یہ تنگ اس لئے ہوگی کہ اس کا رابطہ اللہ کی طرف سے کٹا ہوگا اور اللہ کی رحمت کے میدان کی طرف وہ راہ نہ پائے گی۔ اس میں حیرانی پریشانی اور بےیقینی کی تنگی ہوگی۔ اس میں حرص اور خوف کی تنگی ہوگی۔ ڈر اس بات پر کہ جو ہے وہ چلا نہ جائے۔ غرض اس بات پر کہ ھل من مزید یوں تنگی ہوگی کہ جہاں سے نفع کی معملوی امید ہو انسان اس کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور اگر ایک کوڑی بھی کہیں نقصان ہوجائے ، مر جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اطمینان وقرار صرف اللہ کے ہاں ملتا ہے۔ اسے سکون و اعتماد تب ہی ملے گا جب اس نے مضبوط رسی پکڑی ہوگی جس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اطمینان کو طویل و عریض ، گہرا اور اونچا بنا دیتا ہے۔ ہمہ جت وسعتیں ہوتی ہیں اور جو اس سے محروم ہوجائے اسے ہمہ جہت مصیبت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
غرض خلاصہ یہ ہے کہ جو میرے اس ذکر اور نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کے لئے اس دنیا میں تنگ زندگی ہوگی۔ (اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں) ۔
ونحشرہ یوم القیمۃ اعمی (02 : 321) قیامت کے دن اندھا ہونا بھی دنیا کے اندھے پن کی طرح ایک گمراہی ہے۔ یہ اس لئے ہوگا کہ اس دن دنیا میں ہدایت کے مقابلے میں اندھے پن کا اظہار کیا تھا اور وہ وہاں پوچھے گا۔