یوں مخلوق خداوندی کے ان دو گروہوں کے درمیان عداوت ہوگئی اس لئے اب اولاد آدم یہ عذر پیش نہیں کرسکتی کہ مجھے تو خبر نہ تھی کہ شیطان ہمارا دشمن ہے۔ میں تو بیخبر ی میں مارا گیا ۔ اسی لئے انسان کو ، قبل از وقت پوری طرح خبردار کردیا گیا اور پوری کائنات میں اعلان کردیا یا کہ :۔
بعضکم لبعض عدو (02 : 321) ” تم دونوں فریق ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ “ یہ اعلان جس سے پوری کائنات گونج اٹھی جس پر تمام فرشتے گواہ ٹھہرے ، اللہ کی رحمت کا تقاضا پھر وہا کہ انسان کی ہدایت اور اسے یاد دہانی کرانے کے لئے وقتاً فوقتاً رسول بھیجے جائیں۔ چناچہ دشمن کا اعلان ہوا اور پھر فرمایا کہ رسول بھی آئیں گے اور اس کے بعد تمہیں آزادی ہوگی کہ تم کون سی راہ اختیار کرتے ہو۔
یہ منظر اس قصے کے بعد آتا ہے یوں کہ شاید یہ اس قصے کا حصہ ہے۔ درحقیقت اس کا اعلان بھی عالم بالا میں واقعہ آدم و ابلیس کے بعد ہوا۔ لہٰذا یہ اس پوری کائنات کیلئے زمانہ قدیم سے طے شدہ اصول ہے۔ یہ نہ واپس لیا جاسکتا ہے اور نہ اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے۔
فمن اتبع ھد ای فلا یضل ولایشقی (02 : 321) ” تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ “ وہ گمراہی اور مصیبت سے محفوظ ہوگا ، میری ہدایت کی پیروی کی وجہ سے گمراہی اور مصیبت جنت کے دروازے کے باہر بڑی بےتابی سے تمہارے انتظار میں ہیں لیکن جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ ان سے بچا رہے گا اور مصیبت دراصل گمراہی کا پھل ہے۔ اگرچہ گمراہ شخص دنیاوی ساز و سامان میں غرق ہو ، یہ ساز و سامان بھی ایک گمراہ کے لئے بڑی مصیبت ہوتا ہے۔ دنیا میں بھی مصیبت اور آخرت میں بھی مصیبت ، دنیا میں حرام کی روزی جس قدر بھی وافر ہو ، اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی میں تلخیاں اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انسان جونہی اللہ کی رہنمائی سے نکلتا ہے وہ اندھیروں میں داخل ہوجاتا ہے ، ادھر ادھر ٹامک ٹوئایں مارتا ہے ، قلق اور پریشانی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ کبھی ادھر بھاگتا ہے ، کبھی ادھر بھاگتا ہے ، اس کی زندگی واضح طور پر غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ غرض مصیبت ایک گمراہ شخص کے ساتھ ہوتی ہے ، اگرچہ وہ عیش و عشرت میں ہو۔ اس کے لئے بہت بڑی بدبختی دار آخرت میں انتظار کرتی رہتی ہے اور جو شخص اللہ کی ہدایت پر چلتا ہے وہ دنیا میں بھی گمراہی اور مصیبت سے مکمل طور پر نجات پاتا ہے اور آخرت میں تو وہ جنت الفردوس میں ہوگا۔ صرف یوم موعود آنے کی دیر ہے۔