آدم (علیہ السلام) کو حکم یہ تھا کہ وہ جنت کا ہر پھل کھائیں مگر ایک خاص درخت کا پھل نہ کھائیں۔ انسان کی تربیت اور اس کی قوت ارادی کو جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے بعض چیزوں کی ممانعت کردی جائے تاکہ اس کی شخصیت پختہ ہو۔ یہ انسانی خواہشات اور مادی میلانات پر وہ کنٹرول کرسکے تاکہ وہ جب روحانی ترقی کے لئے اپنی ضروریات مادی کو کم کرنا چاہے تو کم کرسکے۔ وہ مرغوبات اور خواہشات کا غلام بن کر نہ رہ جائے۔ یہ وہ معیار ہے جو انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ دنیا میں جن اقوام نے بھی ترقی کی ہے وہ ایسی رہی ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر ضبط کیا ہے۔ ان کے مرغوبات کے استعمال میں اعتدال ہوتا ہے اور خواہشات سے وہ بلند رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جب کوئی قوم بندہ مرغوبات اور دلدادہ لذات بنی ہے ، وہ روحانی اعتبار سے گر کر حیوانی درجہ تک جا پہنچی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ اللہ نے انسان اول کو اس آزمائش میں ڈالا کیونکہ اس کو منصب خلافت ارضی کے لے تیار کرنا تھا کیونکہ یہاں انہی انسانوں نے کامیاب زندگی بسر کرنی تھی جو مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوں۔ وہ لوگ جو شیطانی چمک دمک اور شیطانی وسواس اور مرغوبات کے حصول اور فراوانی کے مقابلے میں ضبط نفس کرسکتے ہیں۔ یہ تھا انسان کا ، پہلے انسان کا پہلا تجربہ۔ اب نتیجے کا اعلان ہوتا ہے۔
فنسی ولم ندلہ عزماً (02 : 511) ” وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا۔ “