undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وہ اللہ تو بہت بلند ہے جس کے سامنے چہرے جھک جاتے ہیں ، اس کی جناب میں مایوسی تو ظالموں کو ہوتی ہے اور مومنین صالحین کے لئے تو وہاں اطمینان ہی اطمینان ہے۔ وہ بلندیوں سے اس قرآن کو بھیجتا ہے۔ آپ اس کے دہران میں جلدی نہ کریں۔ قرآن کے نزول میں گہری حکمت ہے۔ اس حکمت اور مقصد کو لازماً پورا کیا جائے گا۔ پس آپ رب تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا کرتے رہیں اور جو کچھ آپ کو دیا جا رہا ہے اس کے بارے میں مطمئن ہوجائیں۔ اس کے بارے میں یہ پریشانی نہ دکھائیں کہ وہ تجھ سے چلا جائے گا۔ علم تو وہ ی ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ وہ باقی ہے ، وہ ہمیشہ نفع دیتا رہے گا ، قائم رہے گا ، پھلتا پھولتا رہے گا اور کبھی ضائع نہ ہوگا۔

اسی مناسبت سے یعنی علم و نسیان علم کے مضمون کی مناسبت سے ، یہاں قصہ آدم آتا ہے۔ آدم سے کہا گیا تھا کہ جنت میں رہو اور ایک درخت کے قریب نہ جائو۔ وہ شیطان کے اس دھوکے میں آگئے کہ یہ تو شجرۃ الخلد ہے۔ اس لئے انہوں نے اسے چکھ لیا ۔ خلافت فی الارض عطا ہونے سے قبل یہ رب تعالیٰ کی طرف سے ان کی آزمائش تھی اور یہ تجربہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس لئے کرایا کہ بعد میں آنے والے انسانوں کے لئے عبرت ہو۔ جب یہ آزمائش ہوگئی تو اللہ کی رحمت آگئی ، آدم کو اٹھا لیا گیا اور ان کو راہ راست دکھا دی گئی۔

قرآنی قصص جہاں جہاں بھی آتے ہیں ، سیاق کلام میں ان کے لانے کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ یہ قصہ یہاں اس واقعہ کے بعد آتا ہے کہ جب رسول اللہ وحی الٰہی کے اخذ میں نسیان کے خوف کی وجہ سے جلدی کرتے تھے۔ یہاں قصہ آدم میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ آدم سے یہ غلطی بھول کی وجہ سے ہوئی۔ نیز سورة کا پورا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن بندوں کو دعوت اسلامی کیل ئے منتخب کرتا ہے ان پر اس کی خصوصی نظر ہوتی ہے اور ان پر رحم و کرم کی بارشیں ہوتی ہیں۔ یوں یہ بتایا جاتا ہے کہ آدم سے بھول ہوگئی تو اللہ نے ان پر رحمت کی اور ہدایت دی۔ اس کے بعد قیامت کے مناظر میں سے ایک جھلکی آتی ہے کہ جس میں اطاعت شعاروں کا حال بتایا جاتا ہے۔ نیز نافرمانوں کا حال بھی یعنی آدم زمین پر اترتے ہیں اور قیام کے بعد پھر اصل مقام پر جا کر حساب و کتاب پیش کرتے ہیں۔

اس قصے کا آغاز یوں ہوتا ہے :