You are reading a tafsir for the group of verses 20:113 to 20:114
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

خدا نے اپنی کتاب جس میں ہر قسم کے دلائل ہیں، انسانی زبان میں اتاری ہے۔ اور اس زبان کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ زبان بنا دیا ہے۔ اس طرح خدا کی ہدایت کو ایک ایسی چیز بنا دیا گیا ہے جس کو ہر زمانہ کا آدمی پڑھ اور سمجھ سکے۔

داعی جب حق کی دعوت لے کر اٹھے تو اس کے سامنے نتیجہ کے اعتبار سے دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ پہلی مطلوب چیز تو یہ ہے کہ سننے والے کے اندر نفسیاتی انقلاب پیدا ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے والا بن جائے۔ دوسری اس سے کمتر بات يه ہے کہ داعی کی بات سننے والے کے ذہن میں سوال بن کر داخل ہوجائے۔

مکہ میں دعوتی مہم کے دوران روزانہ لوگوں کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے تھے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش فطری طور پر یہ ہوتی تھی کہ قرآن کا وقفۂ نزول کم ہو،تا کہ آپ کو جلد جلد خدائی رہنمائی ملتی رہے۔ فرمایا کہ قرآن جس تدریج سے اتر رہا ہے وہ خدا کا طے شدہ منصوبہ ہے۔ وہ اسی طرح اترے گا اور بہر حال اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔ تم مستقبل کے قرآن کو حال میں اتارنے کے خواہش مندنہ بنو۔ البتہ یہ دعا کرو کہ خدا تمھارے فہم قرآن میں اضافہ کرے۔ قرآن کی آیتوں میں جو وسیع مضامین چھپے ہوئے ہیں ان کا ادراک کرنے کی صلاحیت پیدا کردے۔ قرآن کی اگلی آیتوں کے بارے میں تعمیل کے بجائے تمھیں اس حکمت کو جاننے کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ قرآن کے نزول میں ترتیب وتدریج کیوں رکھی گئی ہے۔

اس سے یہ نکلتاہے کہ داعی کو کبھی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہيے۔ دعوت کے حالات میں جہاد کے مسائل بیان کرنا۔ اصلاحِ افراد کے دور میں اجتماعی اقدام کے احکام سنانا۔ جن مواقع پر صبرمطلوب ہے ان مواقع پر قتال کی آیتوں کے حوالے دینا، یہ سب اسی کے ذیل میں داخل ہے۔ اور اس سے پرہیز کرنا داعی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔