ان لبشتم الایوماً (02 : 301) ” تم نے صرف ایک دن زندگی بسر کی۔ “ یوم دنیا کی یہ طویل زندگیاں انہیں نہایت ہی مختصر نظر آئیں گی۔ یہاں زندگی میں لوگوں نے جو عیاشیاں کی تھیں ، وہ زندگی کے غم نظر آئیں گے اور ایک نہایت ہی مختصر زمانہ نظر آئے گا۔ قدر و قیمت کے اعتبار سے بھی حقیر زمانہ ۔ کیونکہ دس راتوں کی کیا قیمت ہے اگرچہ حد درجہ عیش و عشرت وہ ، اور ایک رات کی قدر و قیمت کیا ہے اگرچہ اس کا ایک ایک منٹ خوش بختی سے بھرا پڑا ہو۔ ان دونوں کی قدر و قیمت بمقابلہ زمانہ لامحدود اور ایام خلود کیا قیمت ہو سکتی ہے ، جس میں یہ لوگ اب حساب و کتاب کے بعد جانے والے ہیں یعنی جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
اس ہولناک منظر قیامت سے ہمیں پھر یہاں دنیا میں لایا جاتا ہے ، یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ قیامت میں ان پہاڑوں کا کیا وہ گا۔ ان کو تو بس یہ پہاڑ بھی پڑے نظر آتے ہیں ۔ جواب میں اس وقت بھی نہایت ہی خوفناک اور ہولناک تصویر کشی کی جاتی ہے اور کہا اتا ہے تم پہاڑوں کا غم مت کرو خود اپنی فکر کرو کہ تم پر کیا گزرے گی۔