آیت 104 نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُہُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ”اَمْثَلْکے معنی مثالی کے ہیں ‘ یعنی ان میں سے بہترین طریقے والا ‘ انتہائی شائستہ ‘ مہذب cultured اور سب سے زیادہ پڑھا لکھا شخص۔ یہ گویا ان کا لال بجھکڑہو گا جو دنیا میں بزعم خود مثالی شخصیت کا مالک اور دانشور تھا۔ یہی ترکیب قبل ازیں آیت 63 میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں۔ وہاں فرعون کا وہ بیان نقل ہوا تھا جس میں اس نے اپنے ملک کے آئین و تمدن کو ”طَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی“ قرار دیا تھا۔ یہاں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر مشتمل پانچ رکوع اختتام پذیر ہوئے۔ اس سے آگے سورة کے اختتام تک وہی مضامین ہیں جو عام طور پر مکی سورتوں میں ملتے ہیں۔