آپ پر جو قصص نازل کئے جا رہے ہیں ، یہ ماضی کے واقعات ہیں۔ قرآن میں ان کو بیان کیا جا رہا ہے۔ قرآن کو اسی لحاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ قصص بھی دراصل ذکر الٰہی اور آیات الٰہی ہیں اور قرون اوٹی میں جو آیات الٰہی ظاہر ہوئیں یہ ان کا بھی ذکر ہے۔
جو لوگ اس ذکر سے منہ موڑتے ہیں ، ان کو یہاں مجرمین کے نام سے پکارا گیا ہے۔ یہاں ان کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بڑے بڑے بوجھ اٹھا رکھے ہیں ، جس طرح مسافر اپنا بوجھ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن ان کے اس بوجھ میں ان کے لئے کوئی مفید چیز نہیں ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن مجرمین کے چہرے نیلے ہوجائیں گے ، یعنی خوف کے وجہ سے اور بےحد غم کی وجہ سے ان کے چہرے نیلے نظر آئیں۔ وہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے بات کر رہے ہوں گے۔ ماحول میں چھائے ہوئے خوف اور قیامت کے ہول کی وجہ سے وہ اونچی بات نہ کریں گے۔ وہ کا بات کر رہے ہوں گے۔ وہ ان دنوں کے بارے میں ہوگی جو انہوں نے زمین پر گزارے ہوں گے۔ ان کی حس اور شعور میں دنیا کا پورا زمانہ اس قدر سکڑا ہوا اور مختصر ہوگا کہ پوری زندگی یا زمین پر پورا انسانی دور نہیں چند ایام پر مشتمل نظر آئے گا۔
ان لبشتم الا عشراً (02 : 301) ” تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔ “ ان میں سے جو شخص زیادہ صائب الرائے ہوگا وہ اس سے بھی کم اندازہ لگائے گا کہ صرف ایک دن کی زندگی تھی۔