You are reading a tafsir for the group of verses 20:99 to 20:102
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 931 ایک نظر میں

سورة کے آغاز میں موضوع بحث قرآن مجید تھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ پر اس لئے نازل نہیں ہوا کہ اس کی وجہ سے ان کو مصیبت میں ڈالا جائے۔ اس کے بعد پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کو لے کر یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ اپنے بندوں اور رسولوں کے ساتھ کس قدر رعایت کرتا ہے اور ان پر کس قدر مہربانیاں ہوتی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ ان کے بھائی اور ان کی قوم پر ہوئی تھیں۔

اس طویل قصے پر اب یہاں تبصرہ کیا جاتا ہے اور موضوع سخن پھر قرآن مجید ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟ جو لوگ اس سے منہ پھیریں گے ، ان کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ انجام قیام کے مناظر میں سے ایک منظر کو پیش کر کے بتایا یا ہے کہ دنیا کے شب و روز سکڑ جائیں گے ، زمین کے اوپر سے پہاڑ اڑ جائیں گے اور یہ ننگی رہ جائے گی “ بس ایک چٹیل میدان ہوگا ، لوگ میدان حشر میں سہمے کھڑے ہوں گے اور تمام چہرے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوئے اور سرنگوں ہوں گے۔ یہ منظر اور قرآن مجید کے تمام وہ مناظر جن میں لوگوں کو ڈرایا گیا ہے ، ان سے غرض وغایت صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔ قرآن مجید کی بحث کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو یہ تسلی بھی دی جاتی ہے کہ آپ قرآن مجید کو نہ بھولیں گے۔ بھول کے خوف سے اس کے دہرانے میں جلدی نہ کیجیے۔ اس کی وجہ سے اپنے اوپر مصیبت نہ لائیے ، اللہ اسے آپ کے لئے آسان کر دے گا اور آپ کو حفظ کرا دیا جائے گا۔ آپ بس یہ دعا کرتے رہیں کہ اے میرے رب ، میرے علم میں اضافہ کر۔

جب وحی نازل ہونے لگتی تو نبی ﷺ وحی ختم ہونے سے پہلے ہی قرآن کی عبارت کو دہرانا شروع فرما دیتے تھے ، اس خوف سے کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ اس بارے میں ان کو تسلی دی گئی لیکن موضوع کی مناسبت سے بتایا گیا کہ آدم (علیہ السلام) اپنے عہد کو بھول گئے تھے۔ ابلیس نے انہیں بھلا دیا تھا اس لئے آدم اور ابلیس کے درمیان جدی دشمنی چلی آرہی ہے۔ اولاد آدم میں سے بعض لوگ اپنے عہد کو بھلاتے ہیں اور بعض اس کو یاد رکھتے ہیں اور اس انجام کو بھی قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں پیش کیا جاتا ہے۔ گویا یہ سفر کا انجام ہے جو عالم بالا سے شروع ہوا او اس کا خاتمہ بھی عالم بالا پر جا کر ہوا۔

سورة کا خاتمہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اے رسول آپ ان لوگوں کے لئے پریشان نہ ہوں جو دعوت کی تکذیب کرتے ہیں یا اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس دنیا میں ایک محدود وقت دیا گیا ہے۔ اس محدود وقت میں ان کو جو ساز و سامان اور متاع دنیا کی وافر مقدار دی گئی ہے ، یہ ان کے لئے کوئی بہتری نہیں ہے۔ یہ تو ان کے لئے فتنہ اور آزمائش ہے۔ آپ کو یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی بندگی اور اس کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجائیں ، یوں آپ کو کسی دولت مند کی دولت سے زیادہ اطمینان حاصل ہوگا اور آپ اپنی حالت پر راضی ہوں گے۔ اس سے قبل اللہ نے بہت سی اقوام کو اسی طرح آزمائش میں ڈال کر ہلاک کیا ہے۔ اللہ نے لوگوں کی طرف نبی آخر الزمان اور آخری رسول کو بھیج کر ان پر حجت تمام کردی ہے۔ اب لوگوں کے پاس جو از ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ لہٰذا آپ ان کے انجام کے معاملے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں اور اس کو اللہ پر چھوڑ دیں اور کہہ دیں ۔

قل کل متربص فتربصوا فستعلمون من اصحب الصراط السوی ومن اھتدی (20 : 531) ” اے محمد ، ان سے کہو ، ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے ، بس اب منتظر رہو ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ۔ “