undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ “ یہ بھی ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس سے پہلے جن عقائد کا ذکر ہوا ہے انہی کا منطقی نتیجہ ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی اور عبادت کے قابل نہیں ہے ‘ اور نہ کوئی اس قابل ہے کہ اس سے مدد مانگی جائے ۔ یہ عقیدہ بھی اس میدان میں حق و باطل کے درمیان فرق کرکے رکھ دیتا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ہر قسم کی غلامیوں سے مکمل آزادی کیا ہوتی ہے ‘ اور انسان کی جانب سے دوسرے انسانوں کی غلامی کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ اصول دراصل اس بات کا اہم اعلان عام ہے کہ انسان کو مکمل اور بھرپور آزادی ملنی چاہئے ۔ اوہام و خرافات کی پیروی سے آزادی ‘ غلط اوضاع واطوار کی پابندی سے آزادی اور باطل نظام زندگی کی اطاعت سے آزادی صرف ایک اللہ کی بندگی رہے اور صرف ایک اللہ سے نصرت طلب ہو تو انسانی ضمیر کو دوسرے انسانوں ، جاہلی نظامہائے حیات اور رسم و رواج کی جکڑبندیوں سے آزادی نصیب ہوتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اوہام و خرافات اور مذہبی دیومالائی تصورات (Mythology) اور کائناتی قوتوں (Physical Power) کے بارے میں ایک مسلمان کے نقطہ نظر کو واضح کردیاجائے ۔

ایک مسلمان کے نقطہ نظر سے انسانی قوت واقتدار کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک وہ قوت ہے جو ہدایت اور صراط مستقیم پر قائم ہوتی ہے اور اسلامی نظام زندگی کی مطیع ہوتی ہے ۔ اس کے بارے میں ایک مسلم کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ بھلائی ، سچائی اور اصلاحی کاموں میں اس کا معاون و مددگار ہوتا ہے اور اسے اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ۔ دوسری جاہلی قوت ہوتی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کی مطیع نہیں ہوتی ۔ اس کے بارے میں ایک مسلمان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے ، اس سے لڑتا ہے اور اسے ختم کرکے اس کی جگہ صحیح قوت واقتدار قائم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔

یادرکھیئے ! مسلم کو جاہلی قوت کی ظاہری جسامت اور شان و شوکت کو دیکھ کر مضطرب نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لئے قوت کا اصل سرچشمہ ذات باری ہے ۔ اور جاہلیت اپنی طاقت کے اس اصل سرچشمے کو کھوچ کی ہوتی ہے ، جو مسلسل اور دائمی طور پر انسان کو قوت فراہم کررہا ہوتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اجرام فلکی میں سے کوئی عظیم جسم جب کسی جلتے ہوئے ستارے سے جدا ہوتا ہے تو بہت دیر نہیں گزرتی کہ وہ بجھ کر رہ جاتا ہے ۔ اس کی روشنی مدہم اور تپش ختم ہوجاتی ہے ، اگرچہ اس کا ظاہری جسم عظیم الشان ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک حقیر ذرہ بھی اپنی قوت اور روشنی کے اصل منبع سے جڑا ہوتا ہے تو وہ اس سے مسلسل حرارت و روشنی حاصل کرتا رہتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے : کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَت فِئَةً کَثِیرَةً م بِاِذنِ اللہ ِ ” بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل جماعت نے اللہ کے حکم سے ایک کثیر جماعت پر غلبہ پایا “ (البقرہ : 249) ۔

رہی طبیعاتی قوت تو اس کے ساتھ ایک مومن کا تعلق علم ومعرفت اور دوستی وہم آہنگی کا تعلق ہوتا ہے ۔ خوف اور دشمنی کا تعلق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ انسانی اور طبعی دونوں قوتیں ایک مصدر اور ایک مشیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ یعنی ارادہ ربی کے تابع ہوتی ہیں اور دونوں خالق کائنات کے ارادوں کے سامنے محکوم ومقہور ہیں ۔ ان کے درمیان مکمل آہنگی اور پوراتعاون ہے۔ وہ یکساں طور پر متحرک ہوتی ہیں اور ان کی حرکت کی سمت بھی ایک ہوتی ہے ۔

ایک مسلمان کا عقیدہ اور نظریہ حیات ہی اسے یہ سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایاہی اس لئے ہے کہ مومن اس کا دوست ، معاون اور پشتیبان ہو اور اس دوستی کا تحقق اس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک مومن کائنات میں غور وفکر کرے ، اس سے متعارف ہو ۔ اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کائنات کے ساتھ مل کر اپنے رب کی طرف منہ موڑے۔ اگرچہ بظاہر بعض اوقات طبعی قوتیں انسان کے لئے باعث مضرت ہوتی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہوتی ہے انسان ان کے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے ۔ وہ ان کے بارے میں گہری سوچ وبچار نہیں کرتا اور وہ اس اصلی طاقت کو بھول جاتا ہے جو اس پوری کائنات کو چلارہی ہے۔

رومی جاہلیت کے وارث مغرب کے ہاں یہ فیشن سا ہوگیا ہے کہ وہ طبعی طاقتوں کے استعمال کو ” تسخیر طبیعت “ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ تعبیر صاف صاف بتارہی ہے کہ اس جاہلیت کا رشتہ رب کائنات سے ٹوٹ چکا ہے اور اسے کائنات کی اس روح سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اللہ کو لبیک کہہ رہی ہے ۔ رہا وہ مسلمان جس کا دل رحمان ورحیم سے متعلق ہے اور وہ اس کائنات سے بھی پیوستہ ہے جو اللہ رب العالمین کی تسبیح وتہلیل میں ہر قوت محو ہوتی ہے ، وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قہر وجفا کے علاوہ کائنات کے ساتھ تعلق کی ایک دوسری نوعیت بھی ہے ۔ اس کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ ہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اسی نے اس پوری کائنات اور اس کی تمام قوتوں کو پیدا کیا ہے ۔ اور اس کے لئے قانون قدرت کا ضابطہ کار مقرر کیا تاکہ یہ تمام قوتیں ، اس کے دائرے کے اندر اندر ، وہ مقاصد پورے کریں جو اللہ کو مطلوب ہیں ۔ اللہ نے اس کائنات کو صرف انسان کے لئے پیدا کیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سہولت دی کہ وہ اس کے قوانین و ضوابط کو سمجھ سکے اور اس کے بھیدوں کو پاسکے ۔ جب بھی وہ ان رازوں میں سے کسی نئے راز کو پالے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کیلئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے ۔ ازخود انسان کے بس میں یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے اس کے لئے اس کائنات کو مسخر کیا ہے۔ ازخود انسان کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ اس کائنات کو مسخر ومغلوب کرسکتا۔ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی الاَرضِ ۔” مسخر کیا اس نے تمہارے لئے ان سب چیزوں کو جو زمین میں ہیں۔ “

اس تصور کے نتیجے میں ، ان کائناتی قوتوں کے بارے میں ایک مومن کا احساس و شعور ، ہر قسم کے اوہام و خرافات سے پاک ہوتا ہے ۔ اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان خوف وہراس کے پردے حائل نہیں ہوتے ۔ وہ صرف خدائے واحد پر ایمان لاتا ہے ، صرف خدائے واحد کی بندگی کرتا ہے اور صرف رب یکتا سے نصرت کا طلب گار ہوتا ہے ۔ رہیں یہ طبعی قوتیں تو اس کے تصور کائنات کی رو سے، یہ بھی اللہ کی مخلوقات کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ وہ ان میں غور وفکر کرتا ہے ، ان میں دلچسپی لیتا ہے ، اور ان کے بھیدوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے ، اس کے جواب میں یہ تکوینی قوتیں اس کی مددگارہوتی ہیں اور اس کے سامنے اپنے رازکھول کر رکھ دیتی ہیں اور وہ ان قوتوں کے ساتھ پرامن ” شفیقانہ “ ایک صدیق صمیم اور یار مانوس کی سی زندگی بسر کرتا ہے ۔ جبل احد کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے کیا خوب کہا ” یہ پہاڑ ہے اسے ہم سے محبت ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے ۔ “ یہ کلمات اس حقیت کا اظہار کررہے ہیں کہ مسلم اول حضرت نبی ﷺ کے دل میں اس کائنات کی ٹھوس ترین شکل ایک پہاڑ کی بھی کس قدر وقعت اور محبت تھی اور ان کو اس کے ساتھ کس قدر لگاؤ تھا۔

اسلامی تصور حیات کی ان اصولی باتوں کے بعد اور اس بات کی وضاحت کے بعد کے عبادت واستعانت میں ایک مسلم کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہوتا ہے ۔ اب ان باتوں کی عملی تطبیق شروع ہوتی ہے ۔ دعا اور تضرع کے ذریعے اب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یہ دعا بھی ایک اصولی دعا ہے جو اس صورت کی اصولی فضاء اور اس کے مجوعی مزاج سے مکمل ہم آہنگی اور مطابقت رکھتی ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%