You are reading a tafsir for the group of verses 1:1 to 1:7
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

بندے کے لیے کسی کام کا سب سے بہتر آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو اپنے رب کے نام سے شروع کرے۔ وہ ہستی جو تمام رحمتوں کا خزانہ ہے اور جس کی رحمتیں ہر وقت ابلتی رہتی ہیں، اس کے نام سے کسی کام کا آغاز کرنا گویا اس سے یہ دعا کرنا ہے کہ تو اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ میری مدد پر آجا اور میرے کام کو خیر وخوبی کے ساتھ مکمل کردے۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی بندگی کا اعتراف ہے اور اسی کے ساتھ اس کی کامیابی کی الٰہی ضمانت بھی۔

قرآن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مومن کے قلبی احساسات کےلیے صحیح ترین الفاظ مہیا کرتا ہے۔ بسم اللہ اور سورۂ فاتحہ اسی نوعیت کے دعائیہ کلام ہیں۔ سچائی کو پالینے کے بعد فطری طورپر آدمی کے اندر جو جذبہ ابھرتا ہے، اسی جذبہ کو ان الفاظ میں مجسّم کردیاگیا ہے۔

آدمی کا وجود اس کے لیے اللہ کا ایک عظیم عطیہ ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کہا جائے کہ تم اپنی دونوں آنکھوںکو نکلوادو یا دونوں پیروںکو کٹوا دو، اس کے بعد تم کو ملک کی بادشاہی دے دی جائے گی تو کوئی بھی شخص اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔گویا کہ یہ ابتدائی قدرتی عطیے بھی بادشاہ کی بادشاہی سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اسی طرح آدمی جب اپنے گردو پیش کی دنیا کو دیکھتا ہے تو یہاں ہر طرف خدا کی مالکیت اور رحیمیت ابلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کو ہر طرف غیر معمولی اہتمام نظر آتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں حیرت انگیز طورپر انسانی زندگی کے موافق بنادی گئی ہیں۔ یہ مشاہدہ اس کو بتاتا ہے کہ کائنات کا یہ عظیم کارخانہ بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ لازمی طورپر ایسا دن آنا چاہیے جب ناشکروں سے ان کی ناشکر گزارزندگی کی باز پرس کی جائے اور شکر گزاروں کو ان کی شکر گزار زندگی کا انعام دیا جائے۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا! تو فیصلہ کے دن کا مالک ہے۔ میں اپنے آپ کو تیرے آگے ڈالتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں، تو مجھ کو اپنے سایہ میں لے لے۔ خدایا! ہم کو وہ راستہ دکھا جو تیرے نزدیک سچا راستہ ہے۔ ہم کو اس راستہ پر چلنے کی توفیق دے جو تیرے مقبول بندوں کا راستہ ہے۔ ہم کو اس راستے سے بچا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کا راستہ ہے یا ان لوگوں کا جو اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے تیرے غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اللہ کا مطلوب بندہ وہ ہے جو ان احساسات و کیفیات کے ساتھ دنیا میں جی رہا ہو۔ سورۂ فاتحہ اس بندۂ مومن کی چھوٹی تصویر ہے، اور بقیہ قرآن اس بندۂ مومن کی بڑی تصویر۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%