حضرت ابراہیم نے جن بتوں پر تنقید کی، وہ سادہ معنوں میں محض پتھر کے ٹکڑے نہ تھے بلکہ وہ ان ہستیوں کے نمائندے تھے جن کی طلسماتی عظمت ماضی کی طویل روایات کے نتیجہ میں لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہوچکی تھی۔ اس تقابل میں ’’نوجوان ابراہیم ‘‘ ایک معمولی شخص نظر آئے اور عراق کے بت عظمتوں کے پہاڑ دکھائی دئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرہیم کے والدنے حقارت کے ساتھ ان کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔
حق کی دعوت ایک مقام پر شروع کی جائے اور پھر وہ اس مرحلہ میں پہنچ جائے کہ لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں مگر وہ ماننے کے بجائے جارحیت پر اتر آئیں تو اس وقت داعی اپنے مقام عمل کو تبدیل کردیتاہے۔ اسی کا دوسرا نام ہجرت ہے۔ مقام عمل کی یہ تبدیلی کبھی قریب کے دائرہ میں ہوتی ہے اور کبھی دور کے دائرہ میں۔
دعوت کا عمل ایک خدائی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی شروع ہوتاہے ربانی نفسیات کے ساتھ شروع ہوتاہے ۔ مدعو اگر داعی کے ساتھ ظلم وحقارت کا معاملہ کرے تب بھی داعی کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود رہتاہے۔ اسی طرح داعی اگر اپنے ماحول میں بے یارومددگار ہوجائے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا اصل سہارا خدا ہوتاہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بدستور اس کے ساتھ موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔