You are reading a tafsir for the group of verses 15:26 to 15:27
3

ذرا اب اس قصے کے مناظر کو یہاں ہم تفصیل سے لیتے ہیں۔

آیت نمبر 26 تا 27

قصے کے آغاز ہی میں یہ کہا جاتا ہے کہ انسان اور جنات یا شیطانوں کی فطرتوں میں یوم تخلیق کائنات سے ہی فرق امتیاز ہے۔ انسان کو بجنے والی خشک مٹی سے پیدا کیا گیا جو سڑی ہوئی خمیری مٹی یعنی کیچڑ سے لی گئی تھی یعنی اس مٹی کو ٹھوکا جائے تو بجتی ہے اور شیطان کو نار سموم یا آگ کی لپیٹ یا شعلے سے بنایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوگا کہ انسان کے مزاج میں ایک جدید عنصر بھی داخل ہوا ہے یعنی انسان کے اندر اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ رہا شیطان تو وہ نار سموم ہی کی طبیعت پر قائم ہے۔

واذ قال ربک ۔۔۔۔۔ حما مسنون (28) فاذا سویتہ ۔۔۔۔ سجدین (29) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون (30) الا ابلیس۔۔۔۔ السجدین (31) قال یا بلیس ۔۔۔۔۔ السجدین (32) قال لم اکن ۔۔۔۔۔ مسنون (33) قال ۔۔۔۔ رجیم (34) وان علیک ۔۔۔۔ یوم الدین (35) ( 15 : 31 تا 35) “ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ “ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ”۔ چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ”۔ اس نے کہا “ میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے ”۔ رب نے فرمایا : “ اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزاء تک تجھ پر لعنت ہے ”۔

پھر یاد کرو اس موقع کو کہ جب اللہ فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہوا۔ یہ کب کی بات ہے ؟ کہاں یہ واقعہ پیش آیا ؟ اس کی تفصیلی کیفیت کیسی تھی ؟ ان سوالات کا جاب ہم نے پارۂ اول میں سورة بقرہ میں دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ ان سوالات کا شافی جواب ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ عالم بالا کی کہانی ہے اور ہمارے پاس کوئی نص صریح نہیں ہے کیونکہ عالم غیب سے متعلق کسی سوال کا جواب ہم صرف نص صریح ہی سے دے سکتے ہیں۔ جو لوگ ایسے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور ان کی باتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ انسان کو ایسی مٹی سے کیسے بنایا گیا جو سڑی ہوئی تھی اور اس خمیری مٹی سے بنا کر اس کو کسی طرح خشک کردیا گیا تھا کہ وہ بجتی تھی۔ پھر یہ کہ اس کے اندر روح کس طرح ڈال دی گئی۔ ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ان امور کی تفصیلی کیفیات سے ہم بیخبر ہیں۔ کسی صورت میں بھی ہم از سر نو اس کیفیت کا سائنسی تجزیہ نہیں کرسکتے۔

اس سلسلے میں قرآن کریم کی جو آیات وارد ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہیں ، خصوصاً یہ آیت کہ۔

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 2) “ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ”۔ اور دوسری آیت میں ہے۔

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من ماء مھین “ ہم نے انسان کو مٹی کی ست سے پیدا کیا جو حقیر پانی کی شکل میں ہے ”۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصلیت اور زندگی کی حقیقت اس زمین کی مٹی سے ہے اور انسان کے اندر وہی اہم عناصر موجود ہیں جو اس زمین کے اہم عناصر ترکیبی ہیں۔ اسی طرح انسان اور تمام دوسرے زندوں کے اجسام انہی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ لفظ سلالۃ ایک خاصل انداز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہاں تک تو قرآن اشارہ کرتا ہے اور اس کے الفاظ سے یہ مفہوم نکلتا ہے ، لیکن اس سے آگے جدید دور کے انکشافات سے جو کچھ معلوم ہوا اسے قرآن مجید سے اخذ کرنا ایک تکلف ہی ہے۔ موجودہ آیات ان مفاہیم کی متحمل نہیں ہیں۔ جہاں تک سائنسی تحقیقات کا تعلق ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل و ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرضی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرض ہوتے ہیں اور وہ حقائق نہیں بلکہ نظریات ہوتے ہیں ۔ ان نظریات میں سے بعض حقائق کا روپ نہیں اختیار کرتے وہ بحث و تمحیص کے بعد بدل بھی جاتے ہیں لیکن ان سائنسی تحقیقات کا کوئی نتیجہ بھی ان اصولی حقائق سے متضاد نہیں ہوتا جو قرآن میں ثبت ہیں۔ قرآن کریم نے جو ابتدائی حقیقت دی ہے وہ صرف یہ ہے کہ “ ابتداء انسان کو مٹی کے ست سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس کی تخلیق میں پانی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ لہٰذا ابتدائی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ، اپنی جگہ باقی ہے ، بعد میں آنے والے نظریات اس کی تفصیلات ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیچڑ اور اس کے اندر پائے جانے والے عناصر طبیبہ نے ایک زندہ انسان کی شکل کس طرح اختیار کی۔ کس طرح اعضا بنے اور کس طرح انسان کی شکل و صورت وجود میں آئی۔ یہ وہ راز ہے جس کے علل و اسباب معلوم کرنے سے انسان آج تک بےبس ہے۔ پہلے خلیے کو زندگی کس طرح ملی۔ انسان اور زندگی کی نشو ونما پر کام کرنے والے سائنس دان آج تک اس راز سے آگاہ نہیں ہو سکے۔ رہی اعلیٰ درجے کی انسانی زندگی جس کے اندر فہم و فراست کی قوتیں موجود ہیں ، اس کے اندر ایسی امتیازی قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعے انسان نے پوری کائنات کو مسخر کرلیا ہے ، تمام دوسرے درجے کے زندہ حیوانات کو قابو کرلیا ہے۔ اس حضرت انسان کو اس پوری دنیا پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ یہ تو وہ عظیم راز ہے جس کے بارے میں انسانی نظریات آج تک مخبوط الحواس ہیں۔ لیکن اس اہم راز کے بارے میں قرآن کریم انسان کو نہایت ہی سادہ ، واضح اور اجمالی علم دیتا ہے۔

سویتہ ونفخت فیہ من روحی (15 : 29) ( جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو ) تو درحقیقت یہ اللہ کی پیدا کردہ روح ہے جو اس حقیر عضویاتی مخلوق کو ایک بلند انسانی مخلوق بنا دیتی ہے۔ لیکن اہم سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ حقیقت ہے کہ اس انسان کو اس قدر قوت مدرکہ دی کب گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکے۔ چناچہ مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اس راز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ یہ موقف نہایت ہی ٹھوس ہے اور ہم اس پر بڑے اطمینان سے کھڑے ہیں۔

اس سے قبل یعنی تخلیق انسان سے قبل اللہ نے شیطان کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا تھا۔ شیطان اور شیطانی قوت تخلیق آدم سے بھی پہلے موجود تھی۔ یہ ہے وہ علمی اور یقینی اطلاع جو اللہ نے ہمیں دی ہے۔ رہی یہ بات کہ ذلت شیطانی کی کیفیت کیا ہے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات کیا ہیں تو یہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اللہ نے ہمارا یہ فرض قرار نہیں دیا کہ ہم ان لاحاصل چیزوں میں فضول بحثیں اور تحقیقات کریں۔ ہاں ہم اس ناری مخلوق کی بعض صفات سے ضرور واقف ہیں اور آگ کی لپیٹ اور شعلوں کو بھی جانتے ہیں اور اس قوت کی ناری صفات انسانی ذات پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ آگ سے ہیں۔ نیز ہمیں اس قدر معلوم ہے کہ جنات کی ذات صفات میں اذیت اور برق رفتاری شامل ہے کیونکہ ان کی تخلیق نار سموم سے ہے۔ اس قصے کے درمیان میں سے یہ بات بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان میں صفت غرور اور تکبر پایا جاتا ہے۔ چونکہ شیطان جن تھا اس لیے غرور و استکبار اس کے مزاج کا خاصہ ہونا چاہئے کیونکہ نار کے ساتھ یہ صفات لگا کھاتی ہے۔

انسان کی تخلیق چونکہ سڑے ہوئے گارے سے ہوئی ، جو خشک ہو کر صلصال بن گیا تھا یعنی بجنے کی آواز اس سے نکلتی تھی۔ پھر اس میں ذات باری کی طرف سے ایسی روح پھونکی گئی جس کی وجہ سے زندہ مخلوق کی یہ صنف دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوگئی ۔ پھر اسے مخصوص انسانی صفات بھی عطا ہوئیں۔ اور ان صفات میں سے اہم صفت انسان کی وہ علمی ترقی تھی جو وہ انسانیات کے شعبے میں کر رہا تھا۔

یہ نفح روح ، دراصل انسان کو عالم بالا سے مربوط کردیتی ہے۔ یہی صفت ہے جو انسان کو خدا رسیدگی کی قوت دیتی ہے اور یہی قوت انسان کو یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ خدا سے ہدایت اخذ کرسکے ، یوں حضرت انسانی جسمانی اور مادی اور حواس کی دنیا سے بلند ہوجائے اور اس عالم تجرید میں کام کرے ، جس میں دل و دماغ جو لانی دکھاتے ہیں۔ اس طرح انسان کو وہ راز عطا کیا جاتا ہے جس تک انسان ایسے حالات میں پہنچتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے وراء ہوتا ہے اور دائرہ حواس سے آگے بڑھ کر غیر محدود تصورات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔

یہ اونچے درجات حاصل کرنے کے باوجود انسان کے ساتھ مادیت کی آلودگی بہرحال قائم رہتی ہے۔ اس کا مزاج مادی ہی رہتا ہے اور وہ مادی ضروریات اور کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ وہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، لباس کا محتاج ہوتا ہے۔ طبعی میلانات اور جنسی خواہشات رکھتا ہے۔ کمزوریاں اور کو تاہیاں اس میں ہوتی ہیں اور اپنے جسمانی اور تصوراتی کمزوری کی وجہ سے پھر اس سے برے افعال سرزد ہوتے ہیں۔

اسلام کا منشا اور اعلیٰ نصب العین یہ ہے کہ انسان ، انسان مادی اور مٹی کے تقاضوں اور روحانی اور علوی تقاضوں کے درمیان ایک حسین توازن کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچ جائے۔ یہ وہ ترقی یافتہ اور بلند مقام ہے جسے ہم کمال بسری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر دے اور یا خالص روحانی بن جائے ، رہبان ہو یا ہندو ، جوگی ہو یا خالص مادہ پرست بن جائے اور مادی اقدار کے سوا تمام اعلیٰ اقدار کی نفی کر کے حیوان بن جائے۔ اگر انسان ان دونوں عناصر میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کرے گا تو وہ کبھی بھی کمال و ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔ جو قومیں صرف ایک عنصر کو پیش نظر رکھ کر انسان کو نرمی دیتی ہیں وہ ان مقاصد کے خلاف کام کر رہی ہیں جن کے لئے اس مخلوق کی تخلیق کی گئی ہے۔

جو لوگ انسان کی جسمانی قوتوں کو معطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی ہیں جو انسان کی روحانی قوتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں فریق انسان کے سیدھے فطری مزاج کے خلاف جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ انسان سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں خالق انسان کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جسد انسانی کے ایک حصے کو کاٹ رہے ہیں ، لہٰذا وہ اس سلسلے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو تنبیہ کی جو رہبانیت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ بعض نے کہا کہ وہ کبھی عورت کے قریب نہ جائے گا۔ بعض نے کہا کہ وہ صائم الدہر ہوگا ، کبھی بھی افطار نہ کرے گا۔ کسی نے کہا کہ وہ ساری ساری رات عبادت کرے گا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوئے گا۔ حضور ﷺ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی۔ حدیث عائشہ کے آخر میں ہے : فمن رغب عن سنتی فلیس منی “ جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میری امت سے نہ ہوگا ”۔

اسلام نے انسان کے لئے قوانین شریعت کی جو ضابطہ بندی کی ہے وہ اسی اصول پر کی ہے ۔ اسلام نے اخلاق و قانون کا ایسا ضابطہ دیا ہے جو اسی اصول پر مبنی ہے اور اس میں انسان کی تمام فطری صلاحیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اسلام انسان کی صلاحیتوں میں سے کسی صلاحیت کی بیخ کنی نہیں کرتا ، ہاں اسلام ان صلاحیتوں کے درمیان ایک قسم کا توازن ضرور قائم کرتا ہے تا کہ ان میں سے کوئی طاقت اور صلاحیت حد اعتدال سے تجاوز نہ کر جائے اور کوئی صلاحیت دوسری کو ختم نہ کر دے۔ کیونکہ توازن بگاڑنے سے بہرحال غیر متواز صلاحیت ختم ہوگی اور انسان کی بعض خصوصیات کو وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ اور یوں انسان ایک شرعی جرم کا مرتکب ہوگا کیونکہ اللہ کا یہ بھی حکم ہے کہ اپنی فطری قوتوں کو محفوظ رکھو اور ان کی نشوونما کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی عطا کردہ ہیں اور کسی مقصد کے لئے ہیں ، محض اضافی نہیں ہیں اور نہ بےمقصد ہیں۔

یہ تھیں وہ بعض باتیں اور کچھ خیالات جو انسان کی تخلیق کی حقیقت پر غور کرنے کے بعد دل میں اترے۔ قرآن کریم تخلیق انسان کے بارے میں یہی حقائق ذہن نشین کراتا ہے۔ اب مناسب ہے کہ ہم اس قصے کے مشاہد اور مناظر کی طرف آئیں۔