آیت 26 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ حَمَاٍ مَسْنُون سے سنا ہوا گارا مراد ہے ‘ جس سے بدبو بھی اٹھ رہی ہو۔ اس رکوع میں یہ ثقیل اصطلاح تین مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ انسان کے مادۂ تخلیق کے حوالے سے قرآن میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر تراب یعنی مٹی کا ذکر ہے ‘ چناچہ فرمایا : وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ الروم : 20۔ مٹی میں پانی مل کر گارا بن جائے تو اس گارے کو عربی میں ”طِین“ کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی تخلیق کے سلسلے میں طین کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الاعراف میں ہم شیطان کا یہ قول پڑھ آئے ہیں : خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ مجھے تو نے بنایا آگ سے اور اس آدم کو بنایا مٹی سے“۔ طین کے بعد ”طین لازب“ کا مرحلہ ہے۔ سورة الصّٰفٰت میں فرمایا گیا : اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ”طین لازب“ اصل میں وہ گارا ہے جو عمل تخمیر fermentation کی وجہ سے لیس دار ہوچکا ہو۔ عام طور پر گارے میں کوئی organic matter بھوسہ وغیرہ ملانے سے اس کی یہ شکل بنتی ہے۔ ”طین لازب“ کے بعد اگلا مرحلہ ”حماٍ مسنون“ کا ہے۔ اگر لیس دار گارا زیادہ دیر تک پڑا رہے اور اس میں سٹراند پیدا ہوجائے تو اس کو ”حماٍ مسنون“ کہا جاتا ہے۔ پھر اگر یہ سنا ہو اگارا حماٍ مسنون خشک ہو کر سخت ہوجائے تو یہ کھنکنے لگتا ہے۔ آپ نے کسی دریا کے ساحل کے قریب یا کسی دلدلی علاقے میں دیکھا ہوگا کہ زمین کے اوپر خشک پپڑی سی آجاتی ہے ‘ جس پر چلنے سے یہ آواز پیدا کر کے ٹوٹتی ہے۔ ایسی مٹی کے لیے قرآن نے ”صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ“ الرحمن : 14 کی اصطلاح استعمال کی ہے ‘ یعنی ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی۔انسان کے مادہ تخلیق کے لیے مندرجہ بالا تمام الفاظ میں سے صرف ایک بنیادی لفظ ہی کفایت کرسکتا تھا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ‘ لیکن اس ضمن میں ان مختلف الفاظ تُرَاب ‘ طِین ‘ طِین لازب ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون اور صلصالٍ کالفَخَّار کے استعمال میں یقیناً کوئی حکمت کارفرما ہوگی۔ ممکن ہے یہ تخلیق کے مختلف مراحل stages کا ذکر ہو اور اگر ایسا ہے تو نظریہ ارتقاء Evolution Theory کے ساتھ بھی اس کی تطبیق corroboration ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انسان کی تخلیق اگر خصوصی طور پر بھی عمل میں آئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ باقی حیوانات ارتقائی انداز میں پیدا کیے گئے ہوں۔ بہرحال زمین کی حیوانی حیات کے بارے میں سائنس بھی قرآن سے متفق ہے کہ یہ تمام مخلوق مٹی اور پانی سے بنی ہے۔ ادھر قرآن فرماتا ہے کہ مبدأ حیات پانی ہے اور اس سلسلے میں سائنس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ساحلی علاقوں میں مٹی اور پانی کے اتصال سے دلدل بنی ‘ پھر اس دلدل کے اندر عمل تخمیر fermentation کے ذریعے سڑاند پیدا ہوئی تو وہاں ایلجی Algai یا امیبا Amoeba کی صورت میں نباتاتی یا حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ چناچہ سائنسی تحقیق یہاں قرآن سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے ‘ گویا : ”متفق گر دید رائے بو علی بارائے من !“