وَاللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ ۭ وَهُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ یہ مضمون سورة الانبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے : اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط اَفَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا اب یہ غالب آنے والے ہیں ؟“ یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب مشرکین مکہ نے مکہ کے اندر رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی بھٹی پورے زور شور سے دہکا رکھی تھی اور وہ لوگ اس میں اپنے سارے وسائل اس امید پر جھونکے جا رہے تھے کہ ایک دن محمد اور آپ کی اس تحریک کو نیچا دکھا کر رہیں گے۔ اس صورت حال میں انہیں مکہ کے مضافاتی علاقوں اُمّ القریٰ وَ مَنْ حَوْلَھَا کے معروضی حالات کے حوالے سے مستقبل کی ایک امکانی جھلک دکھائی جا رہی ہے کہ بیشک ابھی تک مکہ کے اندر تمہاری حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہے لیکن کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ مکہ کے آس پاس کے قبائل کے اندر اس دعوت کے اثر و نفوذ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں تمہارا حلقہ اثر روز بروز سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے قبیلہ بنی غفار کے ایک نوجوان ابوذر یہ دعوت قبول کر کے اپنے قبیلے میں ایک مبلغ کی حیثیت سے واپس گئے ہیں اور آپ کی وساطت سے یہ دعوت اس قبیلے میں بھی پہنچ گئی ہے۔ یہی حال اردگرد کے دوسرے قبائل کا ہے۔ ان حالات میں کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ دعوت رفتہ رفتہ تمہارے چاروں طرف سے تمہارے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جا رہی ہے ؟ اب وہ وقت بہت قریب نظر آ رہا ہے جب تمہارے ارد گرد کا ماحول اسلام قبول کرلے گا اور تم لوگ اس کے دائرہ اثر کے اندر محصور ہو کر رہ جاؤ گے۔اس آیت میں جس صورت حال کا ذکر ہے اس کا عملی مظاہرہ ہجرت کے بعد بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا۔ حضور نے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک طرف قریش مکہ کے لیے ان کی تجارتی شاہراہوں کو مخدوش بنا دیا تو دوسری طرف مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ سیاسی معاہدات کر کے اس پورے علاقے سے قریش مکہ کے اثر و رسوخ کی بساط لپیٹ دی۔ مدینہ کے مضافات میں آباد بیشتر قبائل قریش مکہ کے حلیف تھے مگر اب ان میں سے اکثر یا تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے یا انہوں نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کردیا۔ قریش مکہ کی معاشی ناکہ بندی economic blockade اور سیاسی انقطاع political isolation کے لیے رسول اللہ کے یہ اقدامات اس قدر مؤثر تھے کہ اس کے بعد انہیں اپنے اردگرد سے سکڑتی ہوئی زمین بہت واضح انداز میں دکھائی دینے لگی۔ دراصل فلسفہ سیرت کے اعتبار سے یہ بہت اہم موضوع ہے مگر بہت کم لوگوں نے اس پر توجہ دی ہے۔ میں نے اپنی کتاب ”منہج انقلاب نبوی“ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔
0%