You are reading a tafsir for the group of verses 13:40 to 13:42
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

خدا کے دین کو اختیار کرنے کا انجام عام طورپر آخرت میں سامنے آتا ہے۔ مگر پیغمبر کے مخاطبین اگر پیغمبر کی دعوت کا انکار کردیں تو اس کا برا انجام ان کے لیے موجودہ دنیا ہی سے شروع ہوجاتاہے۔

تاہم اس دنیوی انجام کاکوئی ایک اصول نہیں۔ یہ مختلف پیغمبروں کے زمانہ میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص مصالح کی بنا پر خدا کا یہ فیصلہ اس شکل میں ظاہر ہوا کہ پیغمبر کے متبعین کو پیغمبر کے منکرین پر غالب کردیا گیا۔

مکی دور کے آخری زمانہ میں جب کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کا انکار کردیا تھا، عین اسی وقت یہ ہورہا تھا کہ اسلام کی دعوت دھیرے دھیرے مدینہ میں اور مکہ کے بیرونی قبائل میں پھیل رہی تھی۔ گویا اسلام کی دعوتی قوت مکہ کے اطراف کو فتح کرتی ہوئی مکہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پیغمبر آخر الزماں کے لیے خدا کی سنت دعوتی فتوحات کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

یہاں دعوتی تدبیر کو خدائی تدبیر کہاگیا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ قریش نے جب مکہ سے آپ کو نکالا تو انھوںنے یہ سمجھا تھا کہ انھوں نے آپ کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس وقت آپ ایک ایسے شخص تھے جس کی معاشیات برباد ہوچکی تھی۔ جس کو خود اپنے قبیلہ کی حمایت سے محروم کردیا گیا تھا۔

قریش یہ سب کرکے اپنے طورپر خوش تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوںنے پیغمبر کے ’’مسئلہ‘‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے۔ مگر وہ اس راز کو سمجھ نہ سکے کہ داعی کا سب سے بڑا ہتھیار دعوت ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کو کوئی شخص کبھی داعی سے چھین نہیں سکتا۔ داعی کی دوسری محرومیاں اس کے داعیانہ زور کو اور بڑھا دیتی ہیں، وہ کسی طرح اس کو کم نہیں کرتیں۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ قریش اپنے خیال کے مطابق پیغمبر سے اس کا سب کچھ چھین چکے تھے، اس کی دعوت چاروں طرف عرب کے قبائل میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دل اس سے مسخر ہوتے جارہے تھے۔ یہ عمل خاموشی کے ساتھ مسلسل جاری تھا۔ اور فتح مکہ گویا اسی کا انتہائی نقطہ تھا — مکہ والوں نے جن لوگوں کو ’’دس سو‘‘ سمجھ کر گھر سے بے گھر کیا تھا وہ صرف چند سال میں ’’دس ہزار‘‘ بن کر دوبارہ مکہ میں اس طرح واپس آئے کہ مکہ والوں کو یہ ہمت بھی نہ تھی کہ ان کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔

حق کی دعوت سے جن لوگوں کے مفادات پر زد پڑتی ہے وہ اس کو زیر کرنے کے لیے اس کے خلاف تدبیریں کرتے ہیں۔ مگر تمام تدبیروں کا سرا خداکے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر ایک کے اوپر پورا اختیار رکھتاہے۔ خدا کی اس برتر حیثیت کا ابتدائی ظہور اسی موجودہ دنیا میں ہو رہا ہے۔ اس کا کامل اور انتہائی ظہور آخرت میں ہوگا جب کہ اندھے بھی اس کو دیکھ لیں اور بہرے بھی اس کو سننے لگیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%