undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 113 ایک نظر میں

اس سورة کے حصہ اول میں موضوع تھا اس کائنات کے آفاق اور عالم غیب کی گہرائیاں اور نفس انسانی کے عجائبات اور گہری انسانی نفسیات اور ان پر غور۔ اس دوسرے حصے میں انسانی وجدان کے محسوسات ، انسانی عقل کے اخذ کردہ نتائج اور نہایت ہی لطیف اور گہری سوچ ، خصوصاً رسالت ، منصب رسالت اور وحی الٰہی کے بارے میں حقائق ، عقیدۂ توحید اور رد شرک ، لوگوں کی نادانی اور معجزات کا مطالبہ اور وقوع قیامت میں جلدی۔ مسائل وہی ہیں جو پہلے حصے میں تھے ، البتہ سفر ایک دوسری وادی میں ہے یعنی وادی عقل وخرد میں۔

اس حصے میں سفر کا آغاز وادی کفرو ایمان میں ہوتا ہے۔ کفر کی وادی میں اندھیری رات جیسی تاریکی ہے جبکہ وادی ایمان میں روز روشن کی طرح روشنی ہے۔ ایک میں علم ہے اور دوسری میں تاریکی اور جہالت ہے۔ اس کے بعد روئے سخن کافرین کی خصوصیات و علامات اور مومنین کی صفات اور مزاج کی طرف پھرجاتا ہے اور پھر مشاہد قیامت میں سے ایک منظر سامنے آتا ہے جس میں اہل جنت کے انعامات اور اہل جہنم کے عذاب کا ذکر ہے۔ درمیان میں رزق کی کشادگی اور رزق کی تنگی کے موضوع پر بھی بات ہوتی ہے اور دونوں حالات کسی کو اللہ کی مشیت کے مطابق پیش آتے ہیں۔ ایک محفل ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جن کے دل ذکر الٰہی کے ساتھ مطمئن ہیں۔ پھر قرآن کریم کے اوصاف اور اس کی قوت کا ذکر ، قریب ہے کہ اس سے متاثر ہو کر پہاڑ چل پڑیں ، قریب ہے کہ زمین مارے خوف کے پھٹ پڑے اور قریب ہے کہ مردے بھی بات کرنے لگیں۔ پھر وہ عذاب اور مصائب جو کفار کو درپیش ہوتے ہیں یا ان کے علاقوں کے قریب ہی دوسری اقوام پر نازل ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ عبرت نہیں لیتے۔ پھر مزاحیہ انداز کلام ان کے الہوں کے بارے میں ، پھر قدرے ان اقوام کی وادی میں سیر جن کو ہلاک کیا گیا اور جن کے مقامات اور مصارع ان کے پاس ہی ہیں۔ آخر میں ان کو اس انجام سے ڈرایا جاتا ہے جو ان کے لئے بےچینی سے انتظار کر رہا ہے کیونکہ وہ رسول برحق کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اچھا چلو اس انجام معلوم کی طرف اگر نہیں مانتے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حصہ اول میں عقل وخرد کو جھنجھوڑنے کے لئے جو ضربات لگائی گئی تھیں ، گویا اس دوسرے حصے میں اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب عقل نے سوچنا شروع کردیا ہے۔ انسانی عقل کے دروازے قدرے کھل گئے ہیں اور انسان نے دعوت اسلامی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ لہٰذا سورة کے ان دونوں حصوں میں باہم ربط ہے۔ یعنی اس سورة کے دونوں حصے انسانی عقل و کرد کی تاروں کو چھیڑ رہے ہیں تا کہ انسانی احساس اور عقل کام کریں ۔

اس حصے میں پہلا مسئلہ ، مسئلہ وحی الٰہی ہے۔ اس سورة کے آغاز میں بھی اسے چھیڑا گیا تھا۔ یہاں دوبارہ اس پر غور کیا جاتا ہے ، نہایت ہی جدید انداز میں۔

آیت نمبر 19

یہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ حق ہے اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جو یقین نہیں کرتے جو جانتے نہیں بلکہ ان کے بالمقابل جو لوگ ہیں وہ اندھے ہیں۔ قرآن کریم کا یہ نہایت ہی پیارا ، موثر اور دل میں بیٹھ جانے والا انداز ہے کہ وہ کسی شخص یا کردار یا رویے کو مجسم شکل میں پیش کرتا ہے اور یہ حجیم اور تمثیل بجائے خود حقیقت ، سچی اور بلا مبالغہ بھی ہوتی ہے مثلاً یہاں مخالفین کو اندھا کہا گیا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس واضح اور ظاہر و باطن حقیقت کو جو شخص نہیں دیکھتا وہ اندھا ہی ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کے سامنے اس کے حوالے سے لوگوں کی دو اقسام ہیں ۔ ایک گروہ دیکھنے والا ہے تو وہ سمجھتا ہے۔ دوسرا اندھوں کا گروہ ہے اور وہ جاہل ہے۔ بعض اندھے پن سے مراد آنکھوں کا اندھا نہیں ہے بلکہ دل کا اندھا ہے۔ مطلب اس شخص سے ہے جس کی قوائے مدرکہ بجھ گئی ہوں ، جن کے دلوں پر تالے پڑگئے ہوں اور جن کی روح آتش معرفت سے محروم ہوگئی ہو اور ان کے دلوں میں معرفت الٰہی کی آخری چنگاری بھی بجھ گئی ہو۔

انما یتذکر اولوا الالباب (13 : 19) “ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ”۔ وہ لوگ جن کے دل و دماغ میں قوت ادراک ہو اور جن کو سچائی کی یاد دہانی کرائی جائے تو وہ اس یاد دہانی اور نصیحت کو قبول کریں اور اگر ان کے سامنے حق کے دلائل پیش کئے جائیں تو وہ ان پر غوروفکر کرتے ہوں۔ اولوا لالباب کی اعلیٰ اور اہم صفات یہ ہیں :

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%