undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا : " چلو یوسف کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو " دونوں باتیں قباحت اور جرم کے اعتبار سے ایک ہیں ، کیونکہ کسی بچے کو ایک ایسی زمین پھینکنا جو دور دراز ہو ، گویا اسے قتل کرنے کے برابر ہے کیونکہ ایسے حالات میں اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ اور کیوں ایسا کرو ؟

يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ : " تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے " اب یوسف تمہاری راہ کی رکاوٹ نہ رہیں گے۔ یعنی ان کا دل یوسف کی محبت سے خالی ہوجائے گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ یوسف موجود ہی نہیں ہے۔ حضرت یعقوب اس سے محبت نہ کریں گے۔ اور ان سے محبت شروع ہوجائے گی۔ اور یہ کس قدر عظیم جرم ہے ؟ تو اس کا علاج یہ ہے کہ یہ اس سے توبہ کرلیں گے ، صالح ہوجائیں گے اور توبہ و صلاح سے ماضی کے جرائم معاف ہوجائیں گے۔

وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : " یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا " یوں شیطان کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا کردے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر غصے میں آجاتے ہیں ہیں وہ بعض کو بعض پر حملہ آور ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور غصے کی حالت میں انسان کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا۔ اور انسان واقعات اور امور کا اچھی طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ چناچہ جب برادران یوسف کے دلوں میں کینہ کی آگ بھڑک اٹھی تو عین اس وقت شیطان پردے سے سامنے آیا اور کہا کہ اسے قتل کردو ، اس کے بعد توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، حالانکہ توبہ ایسی نہیں ہوتی۔ توبہ اس صورت میں ہوتی ہے کہ انسان سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اس پر پشیمان ہوجائے۔ یہ توبہ نہیں کہ پہلے توبہ کرنے کے ارادے سے غلطی کرے۔ منصوبے کے تحت جرم کرے۔ درحقیقت یہ توبہ سے غلط فائدہ اٹھانا ہے اور توبہ کو ارتکاب جرائم کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اور یہ انداز انسان کو شیطان سکھاتا ہے رحمن نہیں۔