undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 9 اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ چناچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہوگی۔وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ اس فقرے میں ان کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آرہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو ؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے ! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آجاتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة المائدۃ آیت 30 میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا : فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ”پس قابیل کے نفس نے اسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔“اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو ‘ پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کردیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔