You are reading a tafsir for the group of verses 12:80 to 12:82
3

جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہوگئے، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے۔ الزام ثابت ہوچکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹہوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کرلیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو حضرت یوسف ؑ کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہوچکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ حضرت یوسف ؑ کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا جاہا تھا انہوں نے روکا تھا۔ اب یہ اپنے اور بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ تم ابا جی کے پاس جاؤ۔ انہیں حقیقت حال سے مطلع کرو۔ ان سے کہو کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ چوری کرلیں گے اور چوری کا مال ان کے پاس موجود ہے ہم سے تو مسئلے کی صورت پوچھی گئی ہم نے بیان کردی۔ آپ کو ہماری بات کا یقین نہ ہو تو اہل مصر سے دریافت فرما لیجئے جس قافلے کے ساتھ ہم آئے ہیں اس سے پوچھ لیجئے۔ کہ ہم نے صداقت، امانت، حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اور ہم جو کچھ عرض کر رہے ہیں، وہ بالکل راستی پر مبنی ہے۔