لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ: حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا " یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانک کہ ہم پورا تجھا ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان بالکل بہک گئے ہیں "۔
یہ کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں ، ہم اسلام اور خاندان کی مدافعت کرتے ہیں اور مفید ہیں۔ جبکہ ہمارے والد محترم ہمارے مقابلے میں ایک بچے اور ایک لڑکے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ، باوجود اس کے کہ ان کے مقابلے میں ہماری افادیت بھی زیادہ ہے اور تعداد بھی۔
ان کا غیظ و غضب اور کینہ جوش مارتا ہے ، عین اس وقت شیطان ان کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب وہ واقعات کا صحیح اندازہ نہیں کرپاتے۔ معمولی باتیں ان کو پہاڑ نظر آتی ہیں۔ عظیم جرائم ان و چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک انسان کا قتل ان کے لیے اب ایک معمولی بات بن جاتی ہے۔ پھر ایک بچے کی وہ جان لینے کے درپے ہیں جو نہ جانتا ہے اور نہ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ پھر وہ ان کا بھائی بھی ہے اور اس کے باوجود کہ یہ ایک برگزیدہ نبی کے بیٹے ہیں۔ اگرچہ وہ خود نبی نہ تھے۔ ان کے لیے ان کے باپ کی زیادہ محبت ایک عظیم جرم بن گیا ہے ، یہاں تک کہ باپ کی زیادہ محبت کرنا قتل کے لیے جواز بن گیا ہے حالانکہ قتل شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔