بھائی کے شلیتے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنادی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے بہی ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کرلی تھی۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی ایک بڑی بہن تھیں، جن کے پاس اپنے والد اسحاق ؑ کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا۔ حضرت یوسف ؑ پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے۔ انہیں حضرت یوسف ؑ سے کمال درجے کی محبت تھی۔ جب آپ کچھ بڑے ہوگئے تو حضرت یعقوب ؑ نے آپ کو لے جانا چاہا۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کردیا۔ ادھر آپ کے والد صاحب حضرت یعقوب ؑ کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی، سر ہوگئے۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ حضرت یوسف ؑ کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا، پھر تلاش شروع کی۔ گھر بھر چھان مارا، نہ ملا، شور مچا، آخر یہ ٹھری کہ گھر میں جو ہیں، ان کی تلاشیاں لی جائیں۔ تلاشیاں لی گئیں۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر حضرت یوسف ؑ کی تلاشی لی گئی، ان کے پاس سے برآمد ہوا۔ حضرت یعقوب ؑ کو خبر دی گئی۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئے گئے۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا۔ انتقال کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کو نہ چھوڑا۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں۔ جس کے جواب میں حضرت یوسف ؑ نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے۔