undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

غرض اب یہ قافلہ چلتا ہے اور وہ اپنے والد کی وصیت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

آیت نمبر 68

ترجمہ : سوال یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ وصیت کیوں فرمائی۔ اس موقعہ پر ان کے باپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ متفرق ابواب سے داخل ہونا۔

روایات اور تفاسیر نے اس سلسلے میں دور دراز کی باتیں کی ہیں جبکہ ان کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی۔ بعض مفسرین نے تو ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو سیاق قرآن کے خلاف ہیں۔ قرآن کریم اگر اس کا کوئی سبب بنانا چاہتا تو ضرور بتا دیتا لیکن قرآن مجید نے تو صرف اس قدر کہا۔

الا حاجۃ فی نفس یعقوب قضھا (12 : 68) “ یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کی انہوں نے اپنی سی کوشش کی ”۔ لہٰذ مفسرین کو چاہئے تھا کہ بس وہ اسی بات پر توقف کرتے جو قرآن کریم نے کہہ دی۔ اور اپنی رائے کو اس ماحول اور فضا تک محدود کرتے جس میں یہ وصیت کی گئی اور جس ماحول میں یہ بات ہو رہی تھی اس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کی سلامتی کے بارے میں خدشات رکھتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ متفرق دروازوں سے غیر محسوس طور پر داخل ہوگئے تو جس خطرے کے بارے میں وہ سوچتے تھے وہ شاید ٹل جاتا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہہ دیا کہ میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا۔ حکم اس کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ صرف اسی پر بھروسہ ہونا چاہئے۔ البتہ ان کے دل میں ایک کھٹک تھی اور ان کا وجدان کسی خطرے کو محسوس کر رہا تھا اور اس کا فیصلہ انہوں نے اس وصیت کے ذریعے کیا ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اللہ کا ارادہ نافذ ہونے والا ہے اور یہ بات ان کو اللہ نے سمجھائی تھی اور یہ ان کے پیغمبرانہ علم میں تھی۔

ولکن اکثر الناس لا یعلمون (12 : 68) “ مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ”۔ اب اس کا حقیقی سبب کیا تھا ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ان کو حاسدوں کی آنکھوں سے بچانا چاہتے تھے یا یہ بات بھی ہو سکتی تھی کہ اگر وہ جتھے کی شکل میں جاتے تو مصر کی مملکت اپنے لئے اس کو سیکورٹی کا مسئلہ بنا لیتی۔ یا ان کو اس کی شان و شوکت سے داخل ہونے سے غیرت آجاتی۔ یا یہ کہ ان کو کوئی ڈاکو نہ سمجھے یا جو بھی ہو ، یہاں اس کی وضاحت وصراحت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں ایک قاری اور مفسر کو یہ نقصان ضرور ہوتا کہ وہ اصل قرآنی موضوع اور غرض وغایت سے ذرا ہٹ کر ان اسباب پر کلام کرتا اور قال و قیل کا سلسلہ چل نکلتا۔ اس قسم کے قال و قیل پر مشتمل مباحث بسا اوقات بحث کو خالص قرآنی فضا اور موضوع سے دور لے جاتے ہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%