You are reading a tafsir for the group of verses 12:67 to 12:68
3

چونکہ اللہ کے نبی نے حضرت یعقوب ؑ کو اپنے بچوں پر نظر لگ جانے کا کھٹکا تھا کیونکہ وہ سب اچھے، خوبصورت، تنو مند، طاقتور، مضبوط دیدہ رو نوجوان تھے اس لئے بوقت رخصت ان سے فرماتے ہیں کہ پیارے بچو تم سب شہر کے ایک دروازے سے شہر میں نہ جانا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے جانا۔ نظر کا لگ جانا حق ہے۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پہیری نہیں کرسکتی۔ اللہ کی قضا کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ حکم اسی کا چلتا ہے۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضا کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ چناچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے۔ اس طرح وہ اللہ کی قضا کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں حضرت یعقوب ؑ نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں۔ وہ ذی علم تھے، الہامی علم ان کے پاس تھا۔ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے۔