آیت 43 وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی ‘ بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ Hyksos Kings حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا ان علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں قبطی قوم کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔