یعنی میرے حالت ، میرا واقعہ اور میری حقیقت کا ذکر اپنے رب اور حاکم کے سامنے کرنا جس کے قانونی اور دستوری نظام کے تم تابع ہو۔ اور جس کے احکام کے تم مطیع ہو۔ ان معنوں میں ہی وہ تمہارا رب ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو حاکم ، سردار اور قانون دہندہ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں ربوبیت کا جو مفہوم ہے۔ یہاں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنا چاہیے کہ حضرت یوسف گڈریوں کے دور میں تھے اور گدرئیے بادشاہوں کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ وہ خود رب ہیں جس طرح فراعنہ کا عقیدہ تھا۔ نہ وہ فرعونوں کی طرح اپنے آپ کو الٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ربوبیت کا مفہوم حاکمیت تھا ، یہاں لفظ رب صریح طور پر حاکم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اب یہاں سیاق کلام یہ تفصیلات نہیں دیتا کہ قیدی ساتھیوں کا انجام اسی طرح ہوا جس طرح حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر کی تھی۔ یہاں قصے میں خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قارئین خود معلوم کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن جس شخص کے بارے میں حضرت یوسف کی تاویل یہ تھی کہ وہ نجات پائے گا ، اس نے حضرت یوسف کے بارے میں حضرت یوسف کی وصیت کو پورا نہ کیا۔ جب وہ شاہی محلات کی زندگی کی ہماہمی میں دوبارہ پہنچا تو وہ ان سرگرمیوں میں مدہوش ہوگیا ، اس نے درس توحید بھی بھلا دیا ، حضرت یوسف کے مسئلے کو بھی پیش نہ کیا۔
فلبث ۔ یہ آخری ضمییر (لبث) حضرت یوسف کی طرف عائد ہے۔ اللہ کی حکمت کی مشیت یہ تھی کہ حضرت یوسف تمام دنیاوی اسباب سے کٹ کر صرف اللہ پر بھروسہ کریں۔ مشیت ایزدی کے نزدیک یہ بات حضرت یوسف کے شایان شان نہ تھی کہ ان کی رہائی کسی دنیاوی اور انسانی ذریعے سے ہو۔
اللہ کے مخلص بندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے لیے خالص ہوجائیں۔ وہ صرف اس کو اپنی حاجات میں پکاریں اور دعا کریں کہ اللہ ان کو ثابت قدم رکھے۔ اور اگر کبھی ان بندوں سے کوتاہی ہوجائے تو پھر ان پر اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی حقیقی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ از سر نو شوق ، محبت اور رضامندی سے اللہ کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر اس کا فضل و کرم پورا ہوجاتا ہے۔