حضرت یوسف نے اچھے انجام پانے والے اور برے انجام تک پہنچنے والے کا یہاں تعین نہیں فرمایا کیونکہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ برا انجام پانے والے کو ذاتی طور پر مخاطب کریں البتہ انہوں نے تاکید سے کہہ دیا کہ انجام یہی ہوگا۔ یہ امر فیصلہ شدہ ہے جس طرح فیصلہ ویسا ہی ہونے والا ہے۔ حضرت یوسف ایک ناکردہ گناہ قیدی تھے ۔ بادشاہ نے ان کی قید کا حکم بغیر سوچ اور تحقیق کے صادر فرما دیا تھا۔ شاید اس کے حاشیہ نشینوں نے عزیز مصری کی بیوی کے واقعہ کو اس طرح اس کے سامنے پیش کیا کہ اس میں حضرت یوسف کو گناہ گار کر کے پیش کیا ہوک ، جس طرح با اثر طبقات عموماً ایسا کرلیتے ہیں۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس موقعہ پر یہ مناسب سمجھا کہ وہ بادشاہ تک یہ بات پہنچا دیں کہ وہ ان کے معاملے میں تحقیق کرے۔